Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلپائن کا چینی بحریہ پر ’لیزر لائٹ حملے‘ کا الزام، ’گارڈز اندھے ہو گئے‘

فلپائن کا کہنا ہے کہ چین نے اگست میں بھی اس کی سامان سپلائی کرنے والی کشتیوں کو روکا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
فلپائن نے کہا ہے کہ متنازع سمندری پانیوں میں چینی فوجی کشتی کی جانب سے اُن کی گشتی بوٹ پر تیز چمکدار لیزر لائٹ پھینکی گئی جس سے عملے کے ارکان وقتی طور پر نابینا ہو گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کوسٹ گارڈز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ واقعہ چھ فروری کو سپراٹلے جزیرے سے 20 کلومیٹر دور تھامس شول کے قریب پیش آیا جہاں فلپائن کے میرینز تعینات ہیں۔
یہ واقعہ سمندری حدود میں فلپائن اور چین کے درمیان ہونے والے واقعات کی نئی کڑی ہے جو تقریباً پورے جنوبی بحیرہ چین کی ملکیت کا دعوٰی رکھتے ہیں اور بین الاقوامی عدالت کے اس فیصلے بھی نظرانداز کیے ہوئے ہیں جس میں کہا تھا کہ ان کے دعوؤں کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔
یہ واقعہ امریکہ اور فلپائن کے درمیان مشترکہ پیٹرولنگ کی بحالی پر اتفاق اور امریکہ کو ایشیا کے جنوب مشرقی ملک میں مزید چار فوجی اڈوں تک رسائی دینے کے معاہدے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔
فلپائن کی کشتی پچھلے ہفتے فوجیوں کو سامان کی سپلائی کا کام کر رہی تھی جو کہ نیوی کی چھوڑی ہوئی ایک کشتی میں رہتے ہیں۔  
چین کی حفاظتی کشتی کی جانب سے دو بار فلپائن کی کشتی پر تیز سبز لائٹ ماری گئی۔
فلپائنی کشتی پر اس وقت موجود اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ’تیز روشنی کی وجہ آنکھیں چندھیا گئیں اور کچھ دیر کے لیے نظر آنا بند ہو گیا۔‘
اسی طرح چینی جہاز نے ’خطرناک حد تک‘ فلپائنی کشتی کے قریب بھی آیا۔
کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ’جان بوجھ کر اہلکاروں کو خوراک کے سامان کی فراہمی کو روکنا فلپائن کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ سیکنڈ تھامس شول کی طرف جانے والی سپلائی کامیابی سے پہنچی یا نہیں۔
عام طور پر یہ کشتیاں سامان لانے اور لے جانے کا کام کرتی ہیں جن کے ساتھ کوسٹ گارڈز بھی ہوتے ہیں۔
فلپائن ک دارالحکومت منیلا میں موجود چینی سفارت خانے کی جانب سے فوری طور پر واقعے پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
فلپائنی کوسٹ گارڈز کا کہنا ہے کہ چینی گارڈز اور میری ٹائم ملیشیا کی کشتیوں نے اگست میں ساحل کو بند کر دیا تھا تاکہ سرکاری جہاز فوجیوں تک نہ پہنچ سکیں۔
فلپائن کے صدر فرڈینند مارکوس اور ان کے چینی ہم منصبی زی جنپنگ نے جنوری میں اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ ’مس کمیونی کیشن‘ سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان براہ راست رابطہ رکھا جائے۔
تاہم یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا ہے کہ جب مذکورہ واقعے میں یہ ہاٹ لائن استعمال ہوئی یا نہیں۔
امریکہ اور فلپائن کے درمیان رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والے معاہدے کے بعد ان بیسز کی تعداد نو ہو گئی ہے جہاں امریکی فوجی رسائی رکھتے ہیں۔

شیئر: