Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاش ضیا محی الدین اور امجد اسلام امجد ہماری داستان سنتے: دانش حسین

دانش حسین کے مطابق جدید دور میں داستان گوئی کا آغاز 2005 میں ہوا تھا۔ (فوٹو: دانش حسین)
انڈیا کے نامور داستان گو دانش حسین نے اردو ادب کی ناپید ہوتی صنف داستان گوئی کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ اپنے مخصوص اندازِ بیان کی وجہ سے لوگ ہمہ تن گوش ہو کر اُن کی داستانیں سُنتے ہیں اور اب نہ صرف انڈیا بلکہ پاکستان میں بھی داستان گوئی پھر سے مقبول ہو رہی ہے۔  
دانش حسین بالی وڈ فلموں اور ویب سیریز میں اداکاری کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں۔ انہوں نے ’پیپلی لائیو‘، ’ویلکم ٹو کراچی‘، ’آنکھوں دیکھی‘، ’دھوبی گھاٹ‘، ’بازار‘ سمیت متعدد فلموں میں کام کیا۔ جبکہ ’تاج محل 1989‘، ’بامبے بیگم‘، ’ہوسٹیجز‘، ’بارڈ آف بلڈ‘ ان کی نمایاں ویب سیریز ہیں۔ 
حال ہی میں لاہور میں منعقدہ ’فیض فیسٹیول‘ میں دانش حسین کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا جہاں انہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا اور جس نے بھی اُن کی پرفارمنس دیکھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ 
داستان گوئی کا یہ سفر کیسے شروع ہوا، اردو نیوز سے گفتگو میں دانش حسین نے بتایا کہ ’داستان گوئی کی روایت ناپید ہو چکی ہے، اب اس کی بحالی ہوئی ہے۔ جدید دور میں داستان گوئی کا آغاز 2005 میں ہوا تھا جب شمس الرحمان فاروقی کے کہنے پر انڈیا میں منعقد کرائی گئی تھی۔ اس کے بعد آٹھ نو سال تک ہم داستانیں سناتے رہے اور پھر یہ مقبول ہونے لگی۔ اس کے بعد نصیرالدین شاہ آئے انہوں نے ہمارے ساتھ پانچ چھ شوز کیے پھر اور لوگ جڑنے لگے اور یہ سلسلہ پھیلنے لگا۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’میں 2011 میں پاکستان آیا ہوا تھا، میں نے ’ناپا‘ کو ایک میل لکھی۔ ضیا محی الدین صاحب نے مجھے دعوت دی، میں ’ناپا‘ گیا میں نے وہاں لیکچر دیا۔ وہاں فواد خان سمیت کئی فنکاروں نے کہا کہ ہم یہ پرفارم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن آپ کی پرفارمنس دیکھ کر ہمیں سمجھ آ گیا کہ داستان کیسے کرنی چاہیے۔‘ 
دانش حسین نے بتایا کہ اس سے انہیں قوت ملی اور یہاں داستان گوئی کی تحریک شروع ہوئی۔ اب داستان گوئی پاکستان، کینیڈا، انڈیا اور دیگر ممالک میں ہو رہی ہے اور اتنی پھیل چُکی ہے کہ اب لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس کا آغاز کس نے کیا۔ جو اچھی بات ہے کہ فن زیادہ بڑا ہو گیا کس نے شروع کیا یہ زیادہ اہم نہیں۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ موضوع کا انتخاب حاضرین کے مزاج کے مطابق کرتے ہیں یا اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ ’لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مواد ایسا تیار کرنا چاہیے کہ لوگ خود کو اُس سے جوڑ سکیں۔ جیسی داستان گوئی ہم کرتے ہیں پہلے داستان گوئی پیش کرنے کا انداز مختلف ہوتا تھا۔ دوسرا یہ کہ اُس وقت یہ زندہ فن تھا، اُس وقت اُنہیں داستانوں کے کردار معلوم ہوتے تھے تو ان کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ داستان کہیں بھی چھوڑ سکتے تھے اور کہیں سے بھی پکڑ سکتے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم لوگوں نے 70 سال بعد یہ روایت شروع کی تو یہ فن مر چکا تھا تو لوگوں کو داستانیں معلوم نہیں تھیں۔ جب ہمیں داستان پرفارم کرنا ہوتی تو پہلے پندرہ منٹ ہمیں اُنہیں سمجھانا پڑتا تھا کہ ہم کیا چیز پیش کر رہے ہیں۔‘ 
’دھیرے دھیرے ہمیں سمجھ آیا کہ اس میں کیا چیز شامل کی جائے جس سے داستان لوگوں کے لیے دلچسپ ہو جائے۔ جیسے کہ کسی ملک میں پرفارم کر رہے ہوں تو وہاں کے کلچر کا کوئی ٹکڑا شامل کر لیا۔ اسی طرح کوئی شاعر زیادہ مقبول ہو اُس کا کوئی شعر سُنا دیا۔ کہیں لگا کہ زبان سمجھنے والے زیادہ لوگ نہیں ہیں تو زبان کو سادہ کر دیا، کہیں محسوس ہوا کہ یہاں اُردو دان بیٹھے ہیں تو جیسی داستان لکھی ہے ویسی ہی سُنا دیتے ہیں۔ تھوڑا ردوبدل کرنا پڑتا ہے کیونکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مفہوم لوگوں تک پہنچ جائے لوگ محظوظ ہوں۔‘ 

دانش حسین نے کہا کہ جب ہم لوگوں نے 70 سال بعد یہ روایت شروع کی تو یہ فن مر چکا تھا۔ (فوٹو: دانش حسین)

دانش حسین نے بتایا کہ وہ پاکستان میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پرفارم کر چکے ہیں۔ ’ہر جگہ شاندار ریسپانس ملا۔ اب تو بہت دُکھ ہوتا ہے کہ جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو انتظار حسین صاحب نے ہمارا تعارف کرایا تھا جو ہمارے لیے بڑی بات تھی۔ ضیا محی الدین، مشتاق احمد یوسفی، امجد اسلام امجد، انور مقصود، زہرا نگاہ صاحبہ نے ہماری داستان دیکھی ہے۔ تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اتنے بڑے شعرا اور ادیب نے ہماری پرفارمنس دیکھی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب افسوس ہوتا ہے کہ ضیا صاحب،امجد اسلام امجد، مشتاق احمد یوسفی نہیں۔ یہ لوگ گزر گئے ہیں تو ایک کسک دل میں رہتی ہے۔ جیسے کہ اس بار جب میں یہاں آ رہا تھا تو میں بہت خوش تھا کہ ضیا صاحب اور امجد صاحب داستان سُنیں گے لیکن آنے سے ایک ہفتہ پہلے دونوں کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایسا تھا کہ دعوت پر پہنچے لیکن کھانا بےنمک ملا۔ ہم آنے سے پہلے مُرجھا گئے تھے۔‘ 
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ لوگوں نے داستان سراہی اور اتنا پیار دیا تو پھر سے یہاں پرفارم کرنے کی خوشی اجاگر ہوئی۔‘ 
پاکستان میں داستان گوئی کے مستقبل کے حوالے سے دانش حسین کا کہنا تھا کہ ’مجھے خوشی ہوئی کہ پاکستان میں داستان گوئی اپنا پیر جما چکی ہے۔ یہاں اتنے باکمال داستان گو ہیں کہ انہوں نے جھنڈا اٹھا لیا ہے اور ان کا فن مزید بڑھے گا۔‘ 

شیئر: