Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستانی سیاست میں معاملہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکا ہے؟

رانا ثناءاللہ نے کہا تھا کہ اگر اُن کی پارٹی کے وجود کی نفی ہوئی تو ہر حد تک جائیں گے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے حال ہی میں کچھ ایسے بیانات دیے ہیں جن کا مطلب ہر حوالے سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ اب سیاسی میدان میں یا تو مسلم لیگ ن رہے گی یا پھر تحریک انصاف۔
انہوں نے موجودہ سیاسی بحران پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عمران خان نے سیاست کو اس سٹیج پر لاکر کھڑا کر دیا ہے جہاں اب یا تو وہ رہیں گے یا ہم، اگر ہم سمجھیں گے کہ ہمارے وجود کی نفی ہو رہی ہے تو پھر ہم ہر حد تک جائیں گے۔‘
ان کے اس بیان کے بعد پاکستان میں پہلے سے جاری سیاسی بحران میں بھونچال آ گیا ہے۔ تحریک انصاف نے وزیر داخلہ کے اس بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ جبکہ کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں عمران خان نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر بات یہاں تک پہنچ گئی ہے تو پھر یہ (مسلم لیگ ن) نہیں رہیں گے۔‘
نوے کی دہائی کی سیاست کے بعد مسلم لیگ ن نے سیاست میں کبھی بھی اتنی سخت پوزیشن نہیں لی۔ اسی تناظر میں مشرف دور میں پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاق جمہوریت سیاست کی تلخیوں کو دور کرنے کی طرف ایک قدم سمجھا جاتا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن نے حال ہی میں جارحانہ سیاست کا آغاز اس وقت کیا جب مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیا گیا اور لندن سے واپسی پر انہوں نے عملی طور پر پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی۔
لیگی قیادت کی طرف سے یہ سخت ترین بیان پہلے درجے کی لیڈرشپ سے حالیہ تاریخ میں  پہلی بار سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے اس طرح کی سخت زبان دوسرے درجے کی قیادت سے ضرور آتے رہے ہیں۔ جیسا کہ جاوید لطیف اور طلال چوہدری گزشتہ کئی ہفتوں سے ایسی ہی جارحانہ پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کو پارٹی کے اندر مریم نواز کیمپ میں شمار کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہماری پارٹی میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اب کسی بھی طرح دفاعی پوزیشن نہیں لی جائے گی۔ اور جارحانہ رویہ اپنایا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندر ہونے والے اس فیصلے کے اثرات ملکی سیاست میں بھی نظر آئیں گے۔ رانا ثنا اللہ نے جو کہا ہے یہ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اب پارٹی کا بیانیہ اسی طرف ہی جائے گا۔‘

لیگی قیادت کی پہلے درجے کی لیڈرشپ سے سخت بیانات پہلی بار سامنے آ رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تو کیا معاملہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکا ہے؟ یہ سوال جاننے کےلئے جب لیگی راہنما عطااللہ تارڑ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’بات بالکل سادہ ہے ۔ رانا صاحب نے جو کہا ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر اب عمران خان کے خلاف ان مقدمات کا کوئی فیصلہ ان کے خلاف نہیں ہوتا اور وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ہمیں چھوڑیں گے؟ میرا خیال ہے کہ اگر ہم سے کچھ نہ ہوسکا توپھر ہماری باری ایسے ہی آئے گی اور یہ بات ہم نے پہلے بھی بھگتی ہے‘
عطااللہ تارڑ مسلم لیگ ن کے ان رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں پارٹی کے اندر اپنا ایک مضبوط مقام بنایا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا رانا ثنااللہ کے بیان کو پارٹی پالیسی سمجھا جائے؟ تو ان کا کہنا تھا ’رانا صاحب مسلم لیگ ن کے فیصلہ سازوں میں ہے۔ ان کی طرف سے بیان ظاہر ہے مسلم لیگ ن کی قیادت کا بیان ہے۔‘
اُن سے پوچھا گیا کہ کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں مریم نواز رواں ہفتے کچھ دھماکہ خیز مواد سامنے لانے کا اعلان کر چکی ہیں، اس بات کا جواب دیتے ہوئے عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز جس فرنٹ پر ہیں وہ ترازو کے پلڑے برابر کرنے سے متعلق ہے۔ وہ جو بھی بات کریں گی وہ عدالتوں کے جانبدارانہ رویوں اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دیے جانے کے بارے میں ہے۔‘
لاہور میں پیر کو مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق نے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سیاست میں موجودہ تلخی کا ذمہ دار قرار دیا تاہم آخر میں یہ بھی کہا کہ ’سیاست جتنی بھی تلخ ہو جائے معاملہ آخر میں میز پر ہی حل ہوتا ہے۔‘

شیئر: