Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف سے قرضہ نہ ملنے کی وجہ ’پاکستان کی چین سے قربت؟‘

پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری نہیں کر رہا۔ (فوٹو: روئٹرز)
سنہ 2017 میں جب نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور اس کے بعد 2018 میں ان کی جماعت انتخابات ہار گئی تو ان کے قریبی حلقے اور کئی لیگی رہنما یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ ’نواز شریف کی حکومت سے رخصتی بین الااقوامی سیاست کا شاخسانہ ہے کیونکہ انہوں نے سی پیک پر کام تیزی سے آگے بڑھایا اور کچھ طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔‘
نواز شریف کے کئی قریبی لوگ نجی محفلوں میں اس پر کُھل کر اظہار بھی کرتے سنائی دیتے تھے، اور ان کا یہ ماننا تھا کہ ’چونکہ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے امریکی کیمپ میں مستقل شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے اور نواز شریف چین سے گہرے تعلقات کے خواہاں ہیں اس لیے ان کو منظر سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘
پھر وقت بدلا اور اپریل 2022 میں مسلم لیگ ن واپس حکومت میں آ گئی۔ لیکن اس مرتبہ معیشت سنبھالنے اور ترقی کا پہیہ چلانے کا تجربہ رکھنے کا دعویٰ کرنے والی جماعت ایک برس میں ملک کو اس سطح سے کہیں نیچے لے گئی ہے جہاں پر اس نے سابقہ حکومت سے یہ کہہ کر اقتدار چھینا تھا کہ ان کے دور میں معیشت تباہ ہو گئی ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ تمام تر کوششوں، سفارتی چینلز اور اثر و رسوخ کے استعمال کے باوجود عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت قرضے کی قسط جاری نہیں کر رہا، اور اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کو یہ پیسے بین الااقوامی اور علاقائی سیاسی چپقلش کی وجہ سے نہیں مل رہے۔
اپنے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرے اور اس کے بعد وہ ہم سے قرضے کے لیے مذاکرات کرے تاکہ اپنی مرضی کی شرائط منوا سکے۔‘
کچھ دیگر حکومتی زعما بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ چین کے ساتھ لڑائی میں پاکستان کو اس کا دوست ہونے کی وجہ سے سبق سکھانا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا اور ان کے زِیراثر عالمی ادارے پاکستان سے مخاصمانہ رویہ رکھے ہوئے ہیں۔

لیگی رہنما 2018 کے انتخابات ہارنے کے بعد یہ کہتے تھے کہ نواز شریف کی حکومت سے رخصتی بین الااقوامی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’پاکستان نے ابھی تمام شرائط پوری نہیں کیں‘

لیکن کیا واقعی ایسا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو ’جیو پالیٹیکس اور چین کے ساتھ دوستی‘ کی وجہ سے قرضہ نہیں دے رہا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان پر دباؤ ضرور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ قرضہ نہ ملنے کی وجہ محض سفارتی صف بندیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے ابھی تک آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کے لیے عائد کئی شرائط پوری نہیں کیں۔ جب تک یہ شرائط پوری نہیں کی جاتیں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ قرضہ نہ ملنے کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے۔‘
شہباز رانا کا کہنا تھا کہ پوری نہ ہونے والی بڑی شرائط میں ایکسٹرنل فنانس گیپ کو ختم کرنا، کرنسی کے تبادلے کی شرح کو مارکیٹ کے مطابق طے کرنا اور شرح سود کا مناسب معیار مقرر کرنا ہے۔
’پہلے یہ شرائط پوری کی جانی چاہییں۔ اگر اس کے بعد بھی قسط جاری نہیں ہوتی تو پھر یہ بات کی جا سکتی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے۔‘
لیکن اسحاق ڈار متعدد پریس کانفرنسز اور ٹی وی پروگراموں میں یہ بات بھی کئی مرتبہ کر چکے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرئط پوری کر دی ہیں۔ نہ صرف وہ بلکہ وزیراعظم شہباز شریف بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان تمام شرائط پوری کر چکا ہے اور اب قرضے کی قسط جلد مل جانی چاہیے۔

اسحاق ڈار متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرئط پوری کر دی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’جیو پالیٹیکس کی بات ایک حساس معاملہ ہے‘

سابق وزیر خزانہ اور سینیئر معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا اس بارے میں ایک اور رائے رکھتے ہیں۔
وہ اس معاملے کو بہت حساس قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کو اس بارے میں یا تو بات نہیں کرنی چاہیے یا پھر کھل کر سب بتانا چاہیے تاکہ اگر کچھ ایسا ہو رہا ہے تو حقیقت منظر عام پر آ جائے۔ 
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’انہوں نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ کس طرح کی جیو پالیٹیکس ہو رہی ہے۔ انہیں کُھل کر اس پر بات کرنی چاہیے۔‘
’انہیں بتانا چاہیے کہ یہ کس طرح کی سیاست ہے، یہ کون کر رہا ہے، کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟‘

’جیو پالیٹکس ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی‘

تاہم کچھ سفارتی حلقوں کے مطابق اسحاق ڈار کی بات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق چین کے ساتھ تعلقات کو قرضے کی قسط نہ ملنے سے منسلک کرنا شاید درست نہ ہو لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف، امریکہ اور مغرب اس وقت انڈیا کے زِیراثر ہیں اور وہ انڈیا کو خوش کرنے کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے۔
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار عبدالباسط بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔

حالیہ برسوں سے چین اور امریکہ کے تعلقات تناؤ کا شکار ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح کی شرائط آئی ایم ایف نے لگائی ہیں ان کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ اور ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ کس ملک کا ہے۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ ہماری چین سے تزویراتی شراکت داری آگے بڑھے۔ سی پیک آگے بڑھے۔ اس وجہ سے ایک لحاظ سے بات تو انہوں نے ٹھیک ہی کہی ہے لیکن اس طرح کی سیاست ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی، یہ حقیقی سیاست کا حصہ ہی ہے اور اس سے چھٹکارا نہیں ہے۔ ہمیں اپنے معاملات خود ٹھیک کرنے چاہییں۔‘

شیئر: