Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وہ بہت خوش تھے‘، شہزادہ داؤد اور بیٹے سلیمان کی آخری تصویر سامنے آ گئی

روانگی کے دو گھنٹے 45 منٹ بعد آبدوز کا رابطہ منقع ہو گیا تھا (فوٹو: اوشن گیٹ)
ٹائٹینک جہاز کے ملبے کے نظارے کے لیے جانے کی کوشش میں جان سے جانے والے ارب پتی پاکستانی شہزادہ داؤد اور بیٹے کی ایسی تصویر سامنے آئی ہے جو روانگی سے چند لمحے قبل لی گئی۔
نیویارک پوسٹ کے مطابق بدقسمت آبدوز میں سوار ہونے والے باپ بیٹا بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ دونوں نے ہیلمٹس کے علاوہ نارنجی رنگ کے لباس پہن رکھے ہیں بیٹے نے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے جبکہ پس منظر میں تاحدنگاہ سمندر دکھائی دے رہا ہے۔
اس وقت باپ بیٹے سمیت کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ پیچھے نظر آنے والا سمندر دونوں کی آخری آرام گاہ بنے گا۔
اس تصویر کے فوراً بعد ہی 18 جون کو باپ بیٹا آبدوز پر سوار ہو گئے تھے جو اپنے مشن پر روانہ ہو گئی تھی اور اس میں ان دونوں کے علاوہ تین اور افراد بھی سوار تھے۔
ان میں اوشن گیٹ کے بانی اور سی ای او سٹاکٹن رش، پال ہینری اور برطانوی ارب پتی ہامیش ہارڈنگ شامل تھے۔
اسی طرح شہزادہ داؤد کے گھر والوں کی جانب سے ایک اور تصویر بھی جاری کی گئی ہے جس میں باپ بیٹا سفر پر روانہ ہونے سے قبل ایک دوسرے کے گلے لگ رہے ہیں۔

شہزادہ داؤد کے گھروالوں کی جانب سے باپ بیٹے کی یہ تصویر بھی جاری کی گئی۔ (فوٹو: فیملی شہزادہ داؤد)

اپنی روانگی کے ایک گھنٹہ اور 45 سکینڈ کے بعد 12 ہزار فٹ کی گہرائی میں آبدوز حادثے کا شکار ہو گئی تھی اور اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شہزادہ داؤد کی بیوہ کرسٹین داؤد نے سانحے کے بعد نیویارک پوسٹ سے بات چیت کی جو اتوار کو شائع ہوئی۔
اس انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے شوہر اور بیٹے نے آخری لمحات سخت اندھیرے میں اپنے پسندیدہ گانے سنتے اور کھڑکیوں سے باہر سمندری مخلوقات کو دیکھتے ہوئے گزارے تھے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارب پتی داؤد شہزادہ اور ان کے بیٹے سلیمان کی ایک تصویر ان کے خاندان والوں کی جانب جاری کی گئی جس میں دونوں سفر پر روانگی سے قبل اکٹھے لیٹے ہوئے ہیں اور مسکرا رہے ہیں۔

اس وقت باپ بیٹے سمیت کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ پیچھے نظر آنے والا سمندر دونوں کی آخری آرام گاہ بنے گا

کرسٹین کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر اور بیٹے ایک سو 11 برس سے زیر سمندر موجود جہاز کے ملبے کو دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔
’وہ اس صبح بہت خوش تھے اور اس بچے کی مانند پیش آ رہے تھے جو اپنی پسندیدہ چیز پانے پر بہت خوش ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب دو گھنٹے بعد آبدوز کا رابطہ منقطع ہوا تو انہیں یقین دلایا گیا کہ کمیونی کیشین کے مسائل ہیں اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
ان کے مطابق ’بتایا گیا کہ اگر رابطہ ایک گھنٹے تک بحال نہ ہو سکا تو سفر ختم کر دیا جائے گا اور آبدوز واپس آجائے گی۔‘
کرسٹین کا کہنا تھا کہ ’اس دوران میں خود بھی دور دور تک سمندر کی سطح پر دیکھتی رہی کہ شاید وہ مجھے نظر آ جائیں۔‘

شیئر: