Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راکی اور رانی کی پریم کہانی:’فلم میں 12 مصالحے پورے ہیں‘

’راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ کا بجٹ ایک ارب 60 کروڑ انڈین روپے ہے۔ (فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نکالی جا سکتی ہے۔ چچا کیدو کو سمجھا کر ہیر رانجھے کا بیاہ کروایا جا سکتا ہے۔ صاحباں کے بھائیوں کو کچھ دے دلا کر مرزے کو بچانے کی کوشش بھی ممکن ہے لیکن بالی وڈ کے ہدایت کار کرن جوہر فارمولہ فلمیں بنانا چھوڑ دیں، یہ ناممکن ہے۔
لگتا ہے انہوں نے اپنے ساتھ یہ عہد کر رکھا ہے کہ جب تک کرہ ارض پر ایک انسان بھی کمرشل فارمولہ فلم دیکھنے کی خواہش رکھے گا، میں ایسی ہی فلمیں بناؤں گا۔
چوں کہ عوام کمرشل فارمولہ فلموں کے عادی ہیں اور ساؤتھ کی فلموں نے ویسے ہی تفریح کے اس معیار کو خاصی بلندی پر پہنچا دیا ہے، اس لیے بہت سے انڈین فلم سازوں کو ایسی فلمیں بنانا پڑ گئی ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کرن جوہر کو فلم کی دیگ میں ہر مصالحہ اس کے ذائقے کے مطابق ڈالنا آتا ہے۔ جذبات، مزاح، موسیقی، خاندانی جھگڑے اور حسبِ ذائقہ ذُو معنی فقرے ان کی فلموں کو مکمل پیکیج بنا دیتے ہیں۔
یہاں بات ہو رہی ہے فلم ’راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ کی جس میں مرکزی کردار اداکار رنویر سنگھ (راکی) اور عالیہ بھٹ (رانی) نے ادا کیے ہیں جبکہ معاون کرداروں میں اداکارہ شبانہ اعظمی (جامنی)، جیا بچن (دھن لکشمی) اور اداکار دھرمیندر (کنول) شامل ہیں۔ ان کے ساتھ زیادہ تر بنگالی فلموں میں کام کرنے والے اداکار ٹوٹا رائے چوہدری (چندن) اور چرنی گنگولی (انجلی) بھی شامل ہیں۔
فلم بنیادی طور پر دو خاندانوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک پنجابی ہے اور دوسرا بنگالی۔ دونوں کے رسم و رواج، ثقافت اور رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور اسی فرق کو مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے اس فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے۔
رندھاوا خاندان یعنی پنجابی فیملی ارب پتی لوگ ہیں اور مٹھائی بنانے کاروبار کرتے ہیں۔ راکی ان کا اکلوتا سپوت ہے۔ گھر پر دادی دھن لکشمی کا راج ہے اور ان کے حکم کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ دوسری طرف چیٹرجی جو کہ بنگالی خاندان ہے اور سُر سنگیت کا دلدادہ ہے، ایک متوسط گھرانہ ہے۔ رانی ان کی اکلوتی بیٹی ہے اور ایک نیوز چینل میں پیشہ ورانہ میزبان ہے۔

فلم کے اپنے چھ گانے ہیں جو کمپوزر پریتم کی تخلیق ہیں۔ (فوٹو: یوٹیوب)

ایک دوسرے کو پسند کر لینے کے بعد راکی اور رانی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیوں نہ شادی سے پہلے وہ دونوں کچھ عرصہ ایک دوسرے کے گھروں میں رہیں اور دونوں خاندانوں کو اس رشتے پر آمادہ کریں۔ چناںچہ پنجابی لڑکا بنگالیوں کے گھر آ جاتا ہے اور بنگالی لڑکی پنجابیوں کے گھر جا پہنچتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے اس کے لیے ذہن پر زیادہ زور مت دیں کہ ساری کہانی انتہائی جانی پہچانی اور قابلِ پیش گوئی ہے۔
ویسے اس فلم کا نام ’دو دادیوں کی ہیٹ  (Hate) کہانی‘ بھی رکھا جا سکتا تھا کیوںکہ اصل مسئلہ اس رشتے میں راکی کی دادی (جیا بچن) اور رانی کی دادی (شبانہ اعظمی) کے درمیان ہوتا ہے۔
جیا بچن نے انتہائی سخت گیر اور جابر ساس کا کردار نبھایا ہے۔ سوشل میڈیا کے مطابق ان کا اکثر صحافیوں سے برتاؤ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا فلم میں ان کے کردار کا نظر آیا۔
خیر دوسری طرف شبانہ اعظمی کا کردار ایک نرم طبیعت کی حامل ساس کا ہے لیکن ان کو سکرین پر زیادہ وقت نہیں دیا گیا اور اداکار دھرمیندر کو بھی کنول رندھاوا کے کردار میں بالکل ضائع کیا گیا ہے اور اداکاری کا زیادہ مارجن نہیں دیا گیا۔
رنویر سنگھ کو دلی کے پنجابی لڑکے کا کردار کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی کیوںکہ وہ یہی سب سے اچھا کر سکتے ہیں۔ عالیہ بھٹ اپنی لاجواب اداکاری کے ساتھ اس فلم میں سرفہرست ہیں۔
فلم میں پرانے گانوں کی بھرمار ہے جو کہ اکثر مناظر میں یا پھر پسِ منظر استعمال کیے گئے ہیں۔ فلم کے اپنے چھ گانے ہیں جو کمپوزر پریتم کی تخلیق ہیں لیکن کوئی ایسا شاہ کار گیت نہیں جو فلم کی پہچان بن جائے۔
فلم کا پروڈکشن ڈیزائن کمال کا ہے جو کہ کرن جوہر کی قریباً تمام فلموں کا خاصا ہے۔ کپڑے، بالوں کے سٹائل، میک اپ اور بہترین مہنگی لوکیشنز سے لے کر زرق برق سیٹ تک سب کرن جوہر کی ہدایت کاری کا پتہ دیتے ہیں۔

فلم میں عالیہ بھٹ پدرانہ معاشرتی نظام میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

عالیہ بھٹ کی ساڑھیاں قابلِ ذکر ہیں جو کئی دنوں تک آپ کو نہیں بھولیں گی۔ کچھ گیت ماسکو اور کشمیر میں فلمائے گئے ہیں جن پر مشہور ہدایت کار یش چوپڑا کی چھاپ دکھائی دیتی ہے لیکن کرن جوہر ان کو اپنا استاد مانتے ہیں تو کچھ اثر تو آنا ہی ہے۔
فلم میں عالیہ بھٹ، رانی کے مضبوط کردار کے ذریعے پدرانہ معاشرتی نظام میں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ بعض مناظر سخت اور کچھ لطیف پیرائے میں یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ عورت کے ذاتی تشخص کے بارے میں دقیانوسی تصوّرات کو اب بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔
اس بات پر سخت تنقید کی گئی ہے کہ عورت کے خوابوں کو سمجھوتوں کی گرہ میں باندھ کر کسی اور کے حوالے کر دیا جاتا ہے، اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ خوابوں سے بہتر سمجھوتے ہوتے ہیں جو کم از کم ٹوٹتے تو کم ہیں۔
اس فلم کی ریٹنگ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6.9 ہے جبکہ ٹائمز آف انڈیا اسے پانچ میں سے تین نمبر دیتا ہے۔ ایک ارب 60 کروڑ انڈین روپے کے بجٹ سے بننے والی یہ فلم پچھلے چار دنوں میں صرف 53 کروڑ کما سکی ہے جو کوئی کامیاب باکس آفس رپورٹ نہیں ہے، لیکن فلم میں 12 مصالحے پورے ہیں جو دیکھنے والے کو بور نہیں کرتے۔

شیئر: