Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاکڑ فارمولا 2023، تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو! ماریہ میمن کا کالم

صادق سنجرانی کو ووٹ دے کر چیئرمین سینیٹ بنانے والے اب ان کی نظروں سے اُتر چکے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)
نگران وزیراعظم کے نام کے ساتھ سیاسی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ایک اور کاکڑ یاد آ گئے۔
آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے اس وقت کے نوآموز وزیراعظم نواز شریف اور تجربہ کار صدر غلام اسحاق خان کے درمیان بحران کا سادہ اور موثر حل تجویز کیا۔ اگرچہ نواز شریف ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کی تقریر کے بعد ڈسمس ہوئے اور پھر تاریخ میں پہلی دفعہ بحال ہو کر واپس بھی آئے، مگر بحران جوں کا توں تھا۔ اس کشمکش کا سادہ حل یہی نکلا کہ دونوں صاحبان کی چھٹی ہوئی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دی گئیں۔
نگران وزیراعظم کے طور پر واشنگٹن سے معین قریشی امپورٹ کیے گئے اور ملک میں مالیاتی اداروں سے وزیراعظم لانے کا ایک رواج بھی پڑا۔ بظاہر تو انوار الحق کاکڑ  اور جنرل وحید کاکڑ میں نام کے علاوہ کوئی مماثلت نہیں ہے، مگر سیاسی حالات کی بے یقینی، بحران اور مسائل اتنے ہی گھمبیر ہیں۔
سب سے پہلے تو نگران وزیراعظم سیاسی پسِ منظر رکھتے ہوئے ایک غیرسیاسی یا کم از کم غیرجانبدار پوزیشن پر آئے ہیں۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی الیکشن کے التوا پر تقریباً تمام ذرائع متفق ہیں۔
فیصل آباد کے ایم این اے راجہ ریاض کے مجوزہ نام کو ن لیگ کے شہباز شریف نے سند دی۔ پیپلز پارٹی البتہ مایوس نظر آئی اور پی ٹی آئی کو تو اس قصے سے ویسے ہی باہر رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر قصہ ہے کیا؟ قصہ ہے سیاست کو غیرسیاسی طریقے سے چلانے کا۔ اسی طرح اس سے پہلے سنجرانی فارمولا بھی چلا تھا۔ حکومتیں آئیں اور گئیں، مگر وہ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔
ان کو ووٹ دے کر چیئرمین بنانے والے اب ان کی نظروں سے اُتر چکے ہیں اور جن کو انہوں نے شکست دی، وہ اب ان کے حلیف ہیں۔ اسے سیاست کی ستم ظریفی کہیں یا معاملہ فہمی کہ صادق سنجرانی سدا بہار سیاستدان بن کر ابھرے، جن کو ہر طرف قبولیت حاصل ہے۔ اس لیے کوئی بھی مشکل ہو وہ بڑے آرام سے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور مفاہمت کے ایک نئے سفیر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی ایسی ہی شہرت کے ساتھ آئے ہیں۔ وہ سیاستدان تو ہیں مگر غیر سیاسی کردار میں بھی ڈھل جائیں گے۔ سب کی طرف سے ان کے لیےخیر سگالی نظر بھی آ رہی ہے اور شاید ابھی ان کے حلیف اور حریف دونوں ہی تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔

نواز شریف ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ کی تقریر کے بعد ڈسمس ہوئے اور پھر تاریخ میں پہلی دفعہ بحال ہو کر واپس بھی آئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کیا وہ اپنی روایتی ملنساری کا فائدہ اٹھا کر سب کو الیکشن کے التوا کے لیے قائل کر لیں گے؟ جب ان کے ماتحت قانونی اداروں میں کچھ سیاسی رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی اور کچھ سہولتوں سے بہرہ مند ہوں گے، تو کیا وہ اپنا کردار ادا کریں گے؟ کیا بلوچستان میں جاری مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف سے کوئی متحرک کردار سامنے آئے گا؟
ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ ہی سامنے آئیں گے، مگر جن معروضی حالات میں ان کی آمد ہوئی ہے، ان میں جوابات کچھ خاص غیرمتوقع بھی نہیں ہوں گے۔ آخر میں سوال یہ بھی ہے کہ انوار الحق کاکڑ کی نامزدگی میں الیکشن کے بعد کے حالات کے لیے کیا اشارے ہیں؟ نگران وزیراعظم کے لیے جو لابنگ ہوئی اس میں اسحاق ڈار سے لے کر فواد حسن فواد اور ملتان کے جیلانی صاحبان سے لے کر سیاسی جماعتوں کے نامزدگان کو تو قبولیت نہیں مل سکی۔
کہنے والوں کے خیال میں یہ الیکشن کے بعد چلنے والی فلم کا ٹریلر ہے۔ اگر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کے طور پر نشیب و فراز کے بعد بھی قائم ہیں، تو پھر آگے صدارت یا وزیراعظم کے لیے بھی اچھی پی آر والے اور accommodating سیاست دانوں کی ضرورت رہے گی اور اگر امیدوار ایسا ہو جو چھوٹے صوبے سے بھی اور پی آر کے ساتھ ساتھ well read ہونے کی شہرت بھی رکھتا ہو تو کوئی اور سرپرائز بھی ہو سکتا ہے۔

شیئر: