Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بن بلائے مہمان لال بیگ کو مارنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

لال بیگ کی پانچ ہزار اقسام میں کچھ درجن ایسی ہیں جنہوں نے انسانوں کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔ (فوٹو: ان سپلیش)
ہمارے گھروں میں کچن سے لے کر صحن اور باتھ رُوم تک ہر جگہ کہیں نہ کہیں لال بیگ موجود ہوتے ہیں۔
لال بیگ چونکہ گندی جگہوں پر پرورش پاتے ہیں اسی وجہ سے اُن سے گھن اور خوف آنا ایک قدرتی بات ہے تاہم کبھی آپ نے لال بیگ کو مارنے کی کوشش کی ہے؟
اگر ہاں، تو یقیننا ایسا بہت ہی کم ہوا ہوگا کہ آپ نے پہلی ہی باری میں کوئی لال بیگ مارا ہو۔ 
کیا آپ جانتے ہیں کہ لال بیگ کو مارنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
دنیا بھر میں لال بیگوں کی لگ بھگ پانچ ہزار سے زائد اقسام ہیں جن میں سے 99 فیصد اقسام ماحول میں رہ کر اہم کام کرتی ہیں۔
 
لال بیگ کی اِن پانچ ہزار اقسام میں کچھ درجن ایسی ہیں جنہوں نے انسانوں کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے جن میں سب سے عام جرمن اور امریکی لال بیگ ہیں جو کے جسمانی اور کیمیائی تبدیلیوں اور چالوں سے اپنی حفاظت کرتی ہیں۔
اگر لال بیگ کو مارنے کے لیے پرانے طریقے جیسے کے سپرے وغیرہ کا استعمال کیا جائے تو اِس سے وہ بہت جلدی الرٹ ہو جاتے ہیں۔
جب آپ لال بیگ پر سپرے کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تو اُس کے بال یا جسم کے باقی اعضاء ہوا میں موجود کرنٹ کو بھانپ لیتے ہیں اور لال بیگ کے سینٹرل نروِس سسٹم میں تیزی سے سگنل پہنچاتے ہیں جس کے باعث لال بیگ فوری طور پر وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔
لال بیگ کی بھاگنے کی رفتار بغیر ریڑھ کی ہڈی کے حشرات میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
لال بیگ کو چھپنے کے لیے بھی جگہ ڈھونڈنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اپنے سیدھے اور لچک دار جسم کی بدولت لال بیگ تنگ جگہوں میں بھی فوری طور پر چھپ جاتے ہیں اور امریکی لال بیگ تو اتنے لچکدار ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے جسم کے مقابلے میں آدھا سوراخ بھی مل جائے تو وہ اُس میں آسانی سے چھپ سکتے ہیں۔
اگر ہم لال بیگ کو پاؤں سے کچلنے کی کوشش کریں تو قدرت نے انہیں ایک طاقت دی ہے جس کے باعث وہ آسانی سے نہیں مرتے اور اپنے جسم سے 900 گنا زیادہ فورس لگا کر اپنے اوپر آئے وزن کا مقابلہ کرتے ہیں۔
لال بیگ بہت سی سخت چیزیں کھاتے ہیں جس میں بال، مُردہ کھال، لیسدار مادے اور کاغذ وغیرہ شامل ہیں۔ وہ یہ چیزیں اپنے اندر موجود ہاضمے کے اِنزائمز کی بدولت آسانی سے کھا جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جب لال بیگ گندی جگہوں پر رہتے ہیں تو اُن میں قدرتی طور پر ایسے جینز پائے جاتے ہیں جو کے اُن کا کئی قسم کی بیماریوں میں دفاع کرتے ہیں۔ 
لال بیگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایٹم بم کے دھماکے میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں تاہم ایسا نہیں ہے۔ دوسرے حشرات کے مقابلے میں لال بیگ کیمیائی تابکاری کی بالکل تھوڑی سی مقدار ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ وہ ایٹم بم کی جگہ کے قریب فورا˜ مر جائیں گے اور اُس سے مِیلوں دُور رہ کر بھی متاثر ہوں گے۔ 
 

شیئر: