Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاڑیاں درآمد کرنے کی آڑ میں مبینہ منی لانڈرنگ کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی

ایف آئی اے حکام کے مطابق پاکستان میں ہنڈی حوالہ کے کاروبار کرنے والے بیرون ممالک رقم منتقلی کے لیے گاڑیوں کی خرید و فروخت کا ذریعہ اختیار کررہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)  نے پاکستان میں درآمد شدہ گاڑیاں فروخت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں گیارہ شو روم مالکان سے گاڑیاں درآمد کرنے کی دستاویزات سمیت دیگر اہم معلومات مانگی گئی ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق پاکستان میں ہنڈی حوالہ کے کاروبار کرنے والے بیرون ممالک رقم منتقلی کے لیے گاڑیوں کی خرید و فروخت کا ذریعہ اختیار کررہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ بے نامی اکاؤنٹس سے گاڑیوں کی خریداری کی مد میں رقم منتقلی کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہے۔
آٹو موٹیو ٹریڈرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایسوسی ایشن ایف آئی اے کے ساتھ مکمل تعاون کررہی ہے۔
’ان کار ڈیلرز کا گاڑیاں درآمد کرنے یا پیسے باہر بھجوانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
ایسوسی ایشن کے رہنما محمد کامران خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ دنوں کے اندر ملک میں ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
’ان اقدامات میں بیرون ممالک سے پاکستان درآمد کی جانے والی گاڑیوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے بھی ایف آئی اے معلومات حاصل کررہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہمارے 11 ممبران کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے نوٹسز بھیجے گئے ہیں، جن میں گاڑی درآمد کرنے اور خرید و فروخت سمیت دیگر معلومات طلب کی گئی ہے۔
محمد کامران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیرون ممالک سے گاڑی منگوانے کا قانون بلکل واضح ہے۔
’گاڑی درآمد کرنے میں شو روم مالکان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی پالیسی کے مطابق گاڑیاں پاکستان لاتے ہیں یا بھجواتے ہیں۔‘
ان کے مطابق گاڑی کے انتخاب سے لے کر گاڑی کی خریداری اور رقم کی ادائیگی سمیت تمام معاملات خریدار خود کرتا ہے، گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام کرنے والوں کا کردار پاکستان میں گاڑی پہنچنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔

محمد کامران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیرون ممالک سے گاڑی منگوانے کا قانون بلکل واضح ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑی درآمد ہونے کے بعد پورٹ سے کلیئر ہوتی ہے اور پھر مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے جو شو روم مالکان خریدتے ہیں اور پھر اسے آگے خریداروں کو فروخت کرتے ہیں۔
’یہ ایک سیدھا پراسیس ہے جو کئی سالوں سے ملک میں جاری ہے۔‘
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ کراچی شہر سے ایسی اطلاعات موصول ہورہی تھی کہ گاڑیوں کی درآمد، خرید و فروخت سمیت دیگر اقدامات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے نے ٹھوس معلومات کی روشنی میں ان تمام شعبوں میں تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں کچھ نوٹسز بھی جاری کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈالر کی غیر قانونی خریدو فروخت اور سملنگ کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا تھا، جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون تیز کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ روانہ کی بنیاد پر ملک بھر میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ اپنی کارروائیاں کرتا ہے۔
ترجمان ایف آئی اے کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کرنسی کی غیر قانونی ترسیل میں ملوث مخلتف عناصر کے خلاف 303 چھاپہ مار کارروائیاں کی گئی ہیں، اب تک 416 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور 49 انکوائریاں درج کی گئی ہیں۔
کارروائیوں کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے متعدد دکانوں اور دفاتر کو بھی سیل کیا ہے۔
’گرفتار ملزمان سے مجموعی طور پر تین ارب 54 کروڑ روپے کی مالیت کی ملکی و غیر ملکی کرنسی برآمد کی ہے۔ برآمد ہونے والی کرنسی میں تین ارب 16 کروڑ پاکستانی روپے، پانچ لاکھ سے زائد امریکی ڈالرز، 23 کروڑ 71 لاکھ روپے کی دیگر غیر ملکی کرنسی شامل ہے۔‘

شیئر: