Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب سے آئی ٹی میں تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں گے: عمر سیف

پاکستان کے نگران وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف کا کہنا ہے کہ پاکستان سعودی عرب سے آئی ٹی کے شعبوں میں تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور سعودی سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالرز کے پراجیکٹس سرمایہ کاری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔
اُردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی آئی ٹی صنعت کا ایک خصوصی وفد سعودی عرب لے کر جا رہے ہیں اور اس دورے کے دوران وہ یہ پراجیکٹس سعودی حکام اور سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سعودی عرب میں سرمایہ کاروں سے مل کر پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری کے مواقع پیش کریں گے۔
’میں نے ان سارے کاروباری افراد، سارے اداروں کی فہرست مانگی ہے۔ ان سب سے ملوں گا اس میں سعودی انویسٹ ہے، پی آئی ای ایف ہے، ایلم ہے۔ میں کاروباری لوگوں کا وفد ساتھ لے کر جا رہا ہوں تا کہ وہ اور سعودی ادارے آپس میں معاہدے کر سکیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے پانچ ملین ڈالر یا 10 ملین ڈالر کے ٹیکنالوجی پارکس میں سرمایہ کاری کی بات نہیں بلکہ اس سے بہت بڑی بات ہو سکتی ہے اور وہ وہی کرنے جا رہے ہیں۔
’پاکستان زیر سمندر تاروں (فائبر آپٹکس) کا مرکز بن سکتا ہے جیسا فجیرہ میں بنا ہے۔ پاکستان اس کا متبادل بن سکتا ہے۔ اگر پاکستان یہ مرکز بن گیا تو یہ فائبر آپٹک سے وسطی ایشیا سے منسلک ہو سکتا ہے جن کے پاس اس وقت فائبر آپٹکس کا زمینی رابطہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اسی طرح ہمارے ڈیٹا سینٹرز سعودی اداروں کو خدمات دے سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم فنڈ آف فنڈز بنانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ باہر سے بڑے سرمایہ کار آئیں اور پاکستان کے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کریں۔ اس میں بھی سعودی سرمایہ کار رقم لگا سکتے ہیں۔‘

عمر سیف نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ باہر سے بڑے سرمایہ کار آئیں اور پاکستان کے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کریں‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)

ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ پاکستان محمد بن سلمان کے ویژن کے مطابق سعودی عرب میں آنے والے انقلاب سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب عالمی سرمایہ کاری کے لیے کُھل گیا ہے اور اس کی معیشت پیٹرولیم وسائل سے آگے بڑھ کر ہائی ٹیک معیشت بن گئی ہے۔
’اس میں ہماری افرادی قوت کام کر سکتی ہے۔ ہائی ٹیک، سافٹ ویئر ادارے اس وژن کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو ان کاروباری مواقع کا بہت بڑا حصہ مل سکتا ہے اور ان کے سرمایہ کار یہاں آکر فنانشل ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔‘
پے پال کے پاکستان آنے کا اعلان چار ہفتوں میں متوقع
ڈاکٹر عمر سیف نے رقوم کی منتقلی کے بین الااقوامی نیٹ ورک پے پال کے پاکستان میں کام شروع کرنے کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ ’چار ہفتوں تک‘ رضا مندی ظاہر کر دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پے پال کو پاکستان میں فری لانسرز کے ساتھ سالانہ 10 ارب ڈالرز کے کاروبار کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے حوالے سے دو سے چار ہفتوں میں کوئی نہ کوئی جواب آ جائے گا۔
’ہم اسے صرف اپنے نوجوانوں کے پیسے باہر سے بھجوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہیں تو کسی تیسرے فریق کے ذریعے پاکستان میں کام کریں جیسے وہ مصر میں کر رہے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ وہ ہماری بات مانیں گے۔‘

10 ماہ تک فائیو جی سروس کے آغاز کا امکان

ڈاکٹر عمر سیف نے مزید بتایا کہ فائیو جی کے لیے پاکستان نے کچھ اصطلاحات کرنی ہیں جن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے تاہم اس میں 10 ماہ کا وقت لگنے کا امکان ہے۔ ’مقصد یہی ہے کہ 10 ماہ بعد پاکستان میں فائیو جی سروس شروع ہو جائے۔‘

سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پالیسی، فیصلہ سازی اور  ترجیحات کی ناکامی

ڈاکٹر عمر سیف کے بقول سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کا دنیا اور بالخصوص انڈیا سے پیچھے رہ جانا حکمت عملی، فیصلہ سازی اور قومی ترجیحات کی ناکامی ہے۔
’سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجاد میں چالیس،  پچاس سال پہلے پاکستان کی کوئی سمت تھی۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنا ایٹم بم بنایا، اپنے میزائل بنائے، پاکستان کے اپنے لڑاکا طیارے ہیں لیکن جو صلاحیت پاکستان کے دفاعی شعبے میں ہے وہ تجارتی مواقع میں منتقل نہیں ہوئی۔‘

عمر سیف نے کہا کہ سعودی عرب سے  10 ملین ڈالر کے ٹیکنالوجی پارکس میں سرمایہ کاری کی بات نہیں بلکہ اس سے بہت بڑی بات ہو سکتی ہے (فوٹو: ٹیک جوس)

’چالیس پچاس سال پہلے ہم نے بہت سے ادارے سوچے، بنائے، ان میں سرمایہ کاری کی، لیکن شاید کہیں نہ کہیں ہم اپنی سمت کھو گئے۔ اگر آپ کی دفاعی ٹیکنالوجی اتنی آگے ہے لیکن اس میں سے کچھ بھی کمرشلائز نہیں ہوا اوریونیورسٹیز نہ اس میں شامل ہوئیں اور نہ ہی اس کی تحقیق یا ڈویلپمنٹ کی۔ کمرشل سیکٹر نہ اس میں شامل ہوا، نہ اس کو کمرشلائز کیا، تو یہ ایک بڑی ناکامی ہے پالیسی کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فنڈنگ کا فقدان نہیں، نہ ہی نیت کا  فقدان ہے، نہ ہی دفاعی صنعت کی جدیدیت کا فقدان ہے،یہ واضح طور پر پالیسی، فیصلہ سازی اور قومی ترجیحات کی ناکامی ہے۔‘  

’انڈیا سے پیچھے رہنے کا مطلب کہیں کام خراب ہوا ہے‘

ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ پاکستان کا آئی ٹی کے شعبے میں انڈیا سے پیچھے رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کسی سطح پر کوئی مسئلہ ہوا ہے۔
’آئی ٹی میں ہماری کل برآمدات  2.6 بلین ڈالرز ہیں، انڈیا کی سو سے ایک سو پچاس بلین ڈالر کے قریب ہیں۔ کہیں تو موازنہ ہونا چاہیے۔ انڈیا سات گنا، دس گنا، بیس گنا بڑا ہو سکتا ہے۔ انڈیا پچاس گنا، ستر گنا تو بڑا نہیں ہو سکتا، یہ تو ممکن نہیں ہو سکتا۔ واضح طور پر کہیں نہ کہیں کام خراب ہوا ہے۔‘

’دو تین سال تک خلا میں نتائج ملیں گے‘

ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ اب اربابِ اختیار کو حالات کی سنگینی کا احساس ہو رہا ہے اور معاملات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دہائیوں کی نظرانداز کی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ احساس حکومت میں ضرور ہے کہ اس کو اب ترجیح دی جائے اور چیزوں کو ٹھیک کیا جائے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلائی سائنس کے ادارے سپارکو میں اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔

ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ نے بتایا کہ پے پال کو پاکستان میں فری لانسرز کے ساتھ سالانہ 10 ارب ڈالرز کے کاروبار کا منصوبہ پیش کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’سپارکو کی کافی تکینیکی صلاحیت ہے۔ ہمیں صرف اس  کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور ضرورت ہے کہ ان کے لیے کوئی واضح ہدف مقرر کریں کہ کب ہم نے خلا میں اگلا قدم اُٹھانا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اگلے دو تین سال میں واضح نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔‘

نیشنل سائنس کونسل کا آخری اجلاس 22 سال پہلے

ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ پاکستان کی نیشنل سائنس کونسل کا آخری اجلاس 22 سال پہلے منعقد ہوا تھا تاہم اب نگران حکومت سائنس کی طرف توجہ دے رہی ہے اور جلد ایک قومی سائنس پالیسی لے کر آ رہی ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی قومی پالیسی آٹھ ہفتے میں
انہوں نے بتایا کہ حکومت آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے میدان میں ترقی کے لیے باقاعدہ پالیسی متعارف کروا رہی ہے۔
’اے  آئی سے ہم معاشی ترقی کر سکتے ہیں۔ اے آئی کی قومی پالیسی کا مسودہ عوامی جائزے کے لیے دستیاب ہے۔ عوامی سفارشات کے بعد اس کو آٹھ ہفتے میں حتی شکل دے دیں گے۔‘

شیئر: