Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے مقدمات کی کوریج: چینلز کی جگہ یوٹیوبرز

میں شاہراہ دستور سے گزر رہا تھا کہ مجھے ہائی کورٹ کے مرکزی دروازے پر ڈیڑھ درجن افراد کا ایک ہجوم بظاہر ایک دوسرے سے الجھتا ہوا نظر آیا۔ گاڑی پارک کی اور جلدی سے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کو موبائل کیمروں نے گھیر رکھا تھا اور وہ درمیان میں سینے پر ’دو درجن تمغے‘ سجائے محو گفتگو تھے۔  
اس سے ملتے جلتے مناظر ماضی میں بھی ہمیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے باہر نظر آتے تھے جب نواز شریف اور مریم نواز کی پیشی ہوتی تھی یا ان سے متعلق کوئی کیس زیرسماعت ہوتا تھا۔ فرق صرف اتنا ہوتا تھا کہ وہاں موبائل کیمروں کی جگہ ٹی وی کیمرے ہوتے تھے جبکہ ’کوٹ پر چپکائے‘ گئے مائیک کی جگہ چینلز کے لوگو والے مائیک ہوتے تھے۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر جب لطیف کھوسہ موبائل کیمرے والوں سے گفتگو کر رہے تھے تو اس وقت وہاں موجود ایک ٹی وی چینل کا اکلوتا کیمرہ ایک طرف کھڑا تھا جس کے بارے میں خیال گزرا کہ بے چارہ یقیناً بوریت محسوس کر رہا ہوگا۔  
لطیف کھوسہ کی ابتدائی گفتگو کے بعد ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات سے لے کر عمران خان کی رہائی تک، نواز شریف کی واپسی سے لے کر انتخابات کے انعقاد تک، مولانا فضل الرحمان کے حالیہ بیانات سے لے کر فلسطین اور اسرائیل کی صورت حال پر تمام امور کا احاطہ کیا جا رہا تھا۔
یوٹیوبرز انھیں سوالات کی صورت میں فل ٹاس گیندیں کروا رہے تھے اور لطیف کھوسہ جواب میں منجھے ہوئے بلے باز کی طرح سٹروکس کھیل رہے تھے۔  
کچھ ہی دیر میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی ہائی کورٹ پہنچیں تو ان کے سکیورٹی سٹاف نے یوٹیوبرز کو لائن اپ کیا اور آگاہ کر دیا کہ قریب نہیں آنا۔
انھوں نے ان ہدایات کو من و عن تسلیم کیا اور بشریٰ بی بی کے ہائی کورٹ میں داخلے کو آرام و سکون سے عکس بند کر لیا۔ ان کی جگہ ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین ہوتے تو کسی کی ایک نہ سنتے اور اپنی مرضی کا شاٹ بنانے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے۔ 

وکیل لطیف کھوسہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر یوٹیوبرز سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

یوٹیوبرز یا سوشل میڈیا چینلز کیسے اہم ہوئے؟   

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کی کوریج پر غیر اعلانیہ پابندی کے بعد ان یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا صحافیوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ہائی کورٹ ہو یا کوئی بھی سیاسی سرگرمی یہ وہاں ضرور موجود ہوتے ہیں۔ ویڈیو بناتے اور اپ لوڈ کرتے ہیں اور اس کے ویوز کے ذریعے کمائی کرتے ہیں۔  
یوٹیوبر نادر بلوچ بنیادی طور پر صحافی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج چلاتے ہیں۔ اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کا نام نشر کرنے پر پابندی ہے اس لیے جب ہم ان سے متعلق خبر اپنے سوشل میڈیا چینلز پر چلاتے ہیں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ ہماری ویڈیوز لوکھوں کی تعداد میں دیکھی جاتی ہیں۔‘
اس حوالے عمران خان کے وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا چینلز ہی سچ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر پابندیاں ہیں اس لیے یا تو وہ سچ بول ہی نہیں رہے یا پھر اس کو ملفوف انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا چینلز کو پذیرائی مل رہی ہے۔‘ 

صرف تحریک انصاف کی ہی کوریج کیوں؟  

یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر لوگ عمران خان اور تحریک انصاف سے جڑے معاملات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم عمران خان کے مقدمات کے لیے ہائی کورٹ آتے ہیں۔ ان کے وکلا سے بات کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز چلاتے ہیں۔  
یوٹیوبر نادر بلوچ کے مطابق ’یہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا معاملہ ہے اسی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم یوٹیوبرز صرف تحریک انصاف کو کور کرتے ہیں۔ ہم اگر کوئی ایسی ویڈیو اپ لوڈ کریں جو کسی دوسری جماعت سے متعلق ہو تو اس کے ویوز چند ہزار ہوتے ہیں جبکہ عمران خان سے متعلق ویڈیوز کے ویوز لاکھوں میں جاتے ہیں۔‘  
سوشل میڈیا صحافی ریاض چمکنی کا تعلق قبائلی علاقے سے ہے اور انھوں نے حال ہی میں ماس کمیونیکیش میں بی ایس کیا ہے۔ انھوں نے فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے۔ جس پر وہ عدالتی اور سیاسی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں۔  

یوٹیوبرز کے مطابق تحریک انصاف سے متعلق ویڈیوز کے ویوز بہت زیادہ آتے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

ان کا کہنا ہے کہ فیس بک پر ان کے آٹھ لاکھ فالوورز ہیں جس وجہ سے ان کی توجہ فیس بک پر ہی ہے۔  
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا کام کسی ایجنڈے کی ترویج نہیں ہے تاہم مقامی میڈیا میں تحریک انصاف کے بیانیے کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ جب ہم وہ دکھاتے ہیں تو لوگ ہمیں پسند کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی عدالتوں میں چونکہ ان دنوں زیادہ تر مقدمات ہیں ہی عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے بارے میں تو لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کسی اور جماعت کی سیاسی سرگرمی کی ویڈیو اپ لوڈ کر بھی دیں تو اس کے ویوز بہت کم ہوتے ہیں۔‘ 

کون کون سے رہنماؤں کی ویڈیوز پر ویوز زیادہ آتے ہیں؟  

اس حوالے سے یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے کم و بیش تمام رہنماؤں کو ہی لوگ دیکھتے تھے لیکن نو مئی کے بعد سے اب صرف وکلا ہی بات کرتے ہیں تو ان وکلا میں سب سے زیادہ شیر افضل ایڈووکیٹ کو دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح لطیف کھوسہ، نعیم پنجوتھا اور شعیب شاہین کو بھی دیکھا جاتا ہے۔  
یوٹیوبر نادر بلوچ کے مطابق ’رانا ثناءاللہ، عطا تارڑ اور کچھ دیگر لیگی رہنماؤں کی ویڈیوز اس لیے دیکھی جاتی ہیں کہ لوگ ان کے عمران خان سے متعلق بیانات کو دیکھ کر اپنا جوابی بیانیہ ترتیب دیتے ہیں۔‘  

روایتی میڈیا یا سوشل میڈیا؟  

اس حوالے سے یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بہت سی پابندیاں ہیں۔ اس لیے ان کی ترجیح سوشل میڈیا ہے جہاں وہ آزادانہ طریقے سے کام کر سکتے ہیں جبکہ روایتی میڈیا کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ پیسے بھی کما سکتے ہیں۔  

عدالتوں کے باہر تحریک انصاف کے وکلا کو یوٹیوبرز کے گھیرے میں دیکھے جانا عام منظر ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

اس حوالے سے نادر بلوچ نے کہا کہ ’روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا کی صحافت میں یہ فرق ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی ایڈیٹوریل چیک اینڈ بیلنس نہیں اس وجہ سے تمام تر معلومات بغیر کسی سینسرشپ کے لوگوں تک پہنچتی ہیں۔ لوگ ہائی کورٹ سے باہر آتے ہیں تو ٹی وی کیمروں کو اگنور کر کے یوٹیوبرز کو بلا کر ان سے گفتگو کرتے ہیں۔‘  
ریاض چمکنی نے کہا کہ ’مجھے دو تین ٹی وی چینلز سے ملازمت کی پیش کش ہوئی ہے لیکن میں نے معذرت کر لی ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو سینسرشپ ہے جبکہ دوسری وجہ تنخواہ ہے۔ وہاں دس دس سال کام کر کے 50 ہزار تنخواہ ملتی ہے جبکہ یہاں سوشل میڈیا صحافی لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا صحافت بھی فل ٹائم جاب ہے۔ ہم بھی صبح گھر سے نکلتے ہیں اور تب تک گھر نہیں جاتے جب تک عدالتی یا سیاسی سرگرمی ختم نہیں ہو جاتی۔ یہاں وقت کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر کسی دوسرے سے پانچ منٹ پہلے کوئی ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں تو وہ وائرل ہو جاتی ہے اور بعد میں کریں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘  

شیئر: