Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی آئی جی شارق جمال کی پُراسرار موت کے دو ماہ بعد مقدمہ درج

 گریڈ 20 کے پولیس افسر ڈی آئی جی شارق جمال لاہور میں نجی فلیٹ پر پراسرار طور پر مردہ پائے گئے تھے(فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ڈی آئی جی پولیس شارق جمال کی پراسرار موت کا مقدمہ دو ماہ بعد درج کر لیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ مقتول ڈی آئی جی شارق جمال کی بیٹی حانیہ شارق خان کی مدعیت میں سنیچر کو تھانہ نشتر کالونی لاہور میں درج کیا گیا ہے۔
مقدمہ میں حانیہ شارق نے سات ملزمان کو نامزد کیا ہے جبکہ ملزمان پر باقاعدہ منصوبہ بندی سے قتل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مقتول ڈی آئی جی شارق جمال کی بیٹی نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد کو نشہ آور زہر دے کر قتل کیا گیا ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق ایک خاتون اور پانچ دیگر ملزمان نے مل کر ڈی آئی جی شارق جمال کو قتل کیا ہے جبکہ ایک اور ملزم نے سہولت فراہم کی۔
ڈی آئی جی کی بیٹی نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان نے قتل کی واردات کو حادثے کا رنگ دینے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر کے مطابق ’بروز وقوعہ بھی مجھے اور والدہ کو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس آٹھ کروڑ روپے مالیتی ڈالرز و تقریباً پانچ لاکھ سے زائد کیش روپے تجوری میں موجود ہیں۔ مزید بتایا کہ ایک ملازمہ کچھ دیر میں مشاعرے کے حوالے سے ملاقات کے لیے آرہی ہے۔ بعد ازاں رات 12:30 بجے ان کے قتل کی اطلاع موصول ہوئی۔‘
مقدمے میں مزید بتایا گیا ہے کہ قتل کے بعد ڈی آئی جی شارق جمال کے کمرے میں موجود تجوری کھلی ہوئی تھی اور رقوم غائب تھیں۔
’انگوٹھی اور گھڑی غائب تھی، دیگر سامان بمع دستاویزات خرید و فروخت پراپرٹی، معاہدات، چیک بکس اور تمام کاغذات غائب تھے۔ میرے والد نے مجھے بتایا ہوا تھا کہ انہوں نے متعدد جگہ زمین خرید و فروخت میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہیں اور اقرار نامے بھی رکھے ہیں۔‘

’قتل کے لیے خطرناک منصوبہ بندی ہوئی‘

شارق جمال کی بیٹی نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ ان کے والد کو انتہائی مہارت اور منصوبہ بندی سے قتل کیا گیا ہے۔
’بہت سارے ملزمان پس پشت بھی ہیں جن کی ایماء پر تمام وقوعہ کیا گیا ہے کیونکہ میرے والد ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور نڈر اور پاک انسان تھے۔ ان کو قتل کرنے کے لیے خطرناک کریمنل پلاننگ کا استعمال ہوا ہے اور حادثاتی موت ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جائے وقوعہ پر صرف چند کتابیں موجود تھیں۔‘
 ایف آئی کے متن کے مطابق ڈی آئی جی شارق جمال کی نعش اکڑی ہوئی تھی، منہ قدرے کھلا ہوا اور خون آلود تھا۔
’خاتون ملزمہ کا موقع پر موجود ہونا اور جرم کرنا ثابت شد ہے۔ ویڈیو ریکارڈنگ موقع ہٰذا بھی موجود ہے۔ تمام ملزمان نے باہم ساز باز سے میرے والد کو قتل کر کے قدرتی موت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ موبائل ڈیٹا موبائل ریکارڈ، تصاویر، کیمرہ اور یکارڈنگ وغیرہ کی رپورٹ و دیگر ثبوت و شہادتوں سے واضح ہے۔‘

ڈی آئی جی شارق جمال کے قتل کا کیسے پتہ چلا؟

 گریڈ 20 کے پولیس افسر ڈی آئی جی شارق جمال لاہور میں نجی فلیٹ پر پراسرار طور پر مردہ پائے گئے تھے۔ ان کی لاش ڈی ایچ اے فلیٹ نمبر 104 اے تھانہ نشتر کالونی کی حدود سے ملی تھی۔ پولیس نے ایک مرد اور خاتون کو حراست میں بھی لیا تھا۔

ڈی آئی جی شارق جمال پولیس افسر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اُس وقت ڈی آئی جی شارق جمال کو ہسپتال پہنچانے والی خاتون نے بیان دیا تھا کہ شارق جمال کی طبعیت ادویات سے رات 10 بجے خراب ہوئی تھی جبکہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور نے بتایا تھا کہ سابق ڈی آئی جی شارق جمال کی موت کو پولیس اور اہل خانہ نے قدرتی موت قرار دے دیا ہے۔

شارق جمال کون تھے؟

ڈی آئی جی شارق جمال پولیس افسر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔  پنجاب پولیس کے مطابق وہ پنجاب پولیس میں ایس پی، ایس ایس پی، ڈی پی او اور ڈی آئی جی کے عہدوں پر خدمات انجام دے چکے تھے۔
انہوں نے ریلوے پولیس میں بطور ڈی آئی جی بھی فرائض سر انجام دیے۔ اس کے بعد ایک سال قبل وہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور تعینات ہوئے تھے۔ پھر انہیں ڈی آئی جی ٹریفک تعینات کر دیا گیا جہاں کچھ ماہ ڈیوٹی کرنے کے بعد وہ حال ہی میں گریڈ 21 میں ترقی کے لیے محکمانہ کورس کر کے واپس آئے تھے۔
شارق جمال موت کے وقت او ایس ڈی تھے اور کسی عہدے پر تعینات نہیں تھے۔

شیئر: