Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اندرا گاندھی اپنی موت کی صبح سج دھج کر نکلی تھیں‘

اندرا گاندھی کی موت کے بعد انڈین ٹیم اپنا پاکستان کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس لوٹ آئی تھی (فائل فوٹو: برِجمین میجز)
آج سے کوئی 40 برس قبل آج ہی کے دن یعنی 31 اکتوبر 1984 کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیالکوٹ کے جناح سٹیڈیم میں دوسرا ون ڈے میچ کھیلا جا رہا تھا۔ میرے چچا محمود الحسنی ریڈیو سے کان لگائے بیٹھے تھے اور کمنٹری سن رہے تھے۔
پاکستان کے کپتان ظہیر عباس نے ٹاس جیت کر ہندوستان کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ مدثر نذر نے دونوں اوپنرز کو آؤٹ کر دیا تو اچانک آل انڈیا ریڈیو سے کمنٹری نشر ہونا بند ہو گئی اور موسیقی بجنے لگی۔ یہ کوئی غم کی موسیقی تھی۔
میرے چچا کرکٹ کے بہت شوقین تھے اور دنیا بھر میں کہیں بھی کمنٹری ہو رہی ہو، وہ اسے ضرور سنتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ریڈیو پاکستان لگایا لیکن وہاں بھی وہی صورت حال تھی۔ کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا۔
اسی دوران کوئی پونے 12 بجے انہوں نے ریڈیو روس سے یہ خبر سنی کہ انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے جو کہ مہلک ہو سکتا ہے۔ اور پھر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسی وجہ سے انڈیا کے تمام ریڈیو سٹیشن سے غم کی موسیقی بجائی جا رہی ہے۔
دوپہر کے بعد سے پورے شہر میں سناٹا چھا گیا تھا۔ لوگ تذبذب کا شکار تھے۔ اندرا گاندھی کے لیے دعائیں ہونے لگی تھیں کیونکہ یہ خبر پورے انڈیا میں پھیل چکی تھی۔
اس دن دہلی کا حال واروک میڈیکل سکول کے پروفیسر سورن سنگھ نے کوئی 30 برس بعد یوں بتایا کہ وہ ان دنوں دہلی میں ٹرینی تھے اور سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پر جون 1984 میں ہونے والے فوجی آپریشن (آپریشن بلو سٹار) کے بعد سکھوں کو شکوک شبہات کی نظر سے دیکھا جانے لگا تھا۔ لیکن ان کی زندگی دہلی میں چل رہی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ 1984 میں 31 اکتوبر کی صبح اچانک نو بج کر 20 منٹ پر سب کچھ بدل گیا۔ ’جیسے ہی میں اپنے ہسپتال صفدر جنگ پہنچا ایک کلرک نے انتہائی نفرت اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا ’تم ۔۔۔ نے مار دیا میڈم کو۔‘
مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا اور میں نے ایک نرس کی طرف مڑ کر کہا کہ ’آپ نے سنا کہ اس نے کیسی گالی دی ہے؟ تو انہوں نے کہا ’آپ نے نہیں سنا؟ اندرا گاندھی پر ان کے سکھ محافظوں نے گولی چلائی ہے۔ انھیں ایمس لایا گيا ہے۔‘
ڈاکٹر سورن سنگھ کہتے ہیں کہ وہ بھاگے بھاگے ایمس ہسپتال پہنچے تو ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ ’آپ کے لیے یہ جگہ محفوظ نہیں ہے، آپ چلے جائیں۔‘

سنہ 1984 میں 31 اکتوبر کی صبح اچانک نو بج کر 20 منٹ پر سب کچھ بدل گیا تھا (فائل فوٹو: سکرین گریب، انڈین ایکسپریس)

دروازے پر بھیڑ جمع ہو چکی تھی اور جب میں نکلنے لگا تو کسی نے چیخ کر ’۔۔۔‘ کہا اور ایک گھونسہ میری گردن پر پڑا اور میری پگڑی سر سے اچھل گئی۔ اپنی پگڑی کو پکڑ کر میں جھکتا ہوا کسی طرح باہر نکلا اور ایک آٹو رکشے میں بیٹھ کر کہا کہ مجھے یہاں سے لے چلو۔‘
’انڈیا ٹوڈے‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس دن مسز گاندھی بہت زیادہ تیار ہو کر انٹرویو کے لیے اپنے گھر سے نکلی تھیں کیونکہ برطانوی اداکار اور کامیڈین پیٹر استینو آئرش ٹی وی کے لیے اندرا گاندھی سے ایک انٹرویو کرنے والے تھے۔
انڈیا ٹوڈے نے لکھا کہ ’31 اکتوبر 1984 بروز بدھ ٹھنڈی اور صاف شفاف صبح کو دنیا کی سب سے طاقتور خاتون کے طور پر جانی جانے والی اندرا گاندھی نے پھلوں اور ٹوسٹ کا ناشتہ کیا اور ایک طرف کے دروازے سے باہر نکل گئیں۔‘
’ان کی سرکاری رہائش گاہ وَن، صفدر جنگ روڈ، نئی دہلی کے ایک مخصوص علاقے میں درختوں کی قطاروں سے بھرے حصے میں تھی جسے انگریزوں نے نصف صدی قبل اپنے شاہی دارالحکومت کے طور پر تعمیر کیا تھا۔‘

’آپریشن بلیو سٹار‘ کے بعد سے اندرا گاندھی کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا (فائل فوٹو: ٹائمزناؤ)

اس دن انہوں نے زعفرانی رنگ کی ساڑھی پہنی تھی کیونکہ ان سے یہ کہا گیا تھا کہ ٹی وی پر اس رنگ کی فلمبندی اچھی ہوتی ہے۔ اس دن شاید انٹرویو کے دوران بہترین نظر آنے کے لیے وہ بہترین انداز میں تیار ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنی بلٹ پروف جیکٹ بھی نہیں پہنی تھی جو کہ عموماً وہ اپنے بلاؤز کے نیچے پہنتی تھیں۔
’آپریشن بلیو سٹار‘ کے بعد سے ان کی جان کو زیادہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا اس لیے انہیں سخت تاکید تھی کہ وہ بلٹ پروف جیکٹ ہی پہن کر نکلیں۔ ان کا انٹرویو وَن، اکبر روڈ پر تھا جو کہ ان کی رہائش سے ملحق بنگلہ تھا اور وزیراعظم کے دفتر کے طور پر استعمال میں تھا۔ ان کی رہائش اور وزیراعظم کے دفتر کے درمیان بس ایک دروازے کا فاصلہ تھا۔
جب وہ اس دروازے پر پہنچیں تو انہوں نے وہاں تعینات سکھ گارڈ بینت سنگھ کو مسکرا کر دیکھا جس کے جواب میں بینت سنگھ نے ان کے پیٹ میں اپنے 38 بور ریوالور سے تین گولیاں داغ دیں۔
بینت سنگھ گذشتہ نو برس سے ان کے محافظوں میں شامل تھے اور ان کے ساتھ کئی بار بیرون ملک کا دورہ بھی کر چکے تھے۔
پھر وہاں تعینات دوسرے سکھ محافظ ستونت سنگھ نے ان پر اپنی سٹین گن خالی کر دی جس سے 30 گولیاں نکلیں۔ چاروں طرف افراتفری پھیل گئی۔ محافظ اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگے۔ اس دوران بینت سنگھ کو پھاٹک پر اپنی واکی ٹاکی ٹانگنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ہاتھ اوپر کرتے ہوئے کہا ’مجھے جو کرنا تھا میں نے کر دیا۔ اب آپ کو جو کرنا ہے آپ کر لو۔‘ یعنی انہوں نے اپنے انداز میں کہا کہ انہوں نے گولڈن ٹمپل کا بدلہ لے لیا ہے۔

ان کی موت کا اعلان انڈیا کے سرکاری ٹی وی دُوردرشن پر نیوز پریزنٹر سلمیٰ سلطان نے کیا (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)

گھر کے باہر حفاظت پر تعینات تبتن بارڈر پولیس کے اہلکاروں نے ان دونوں کو گرفتار کر لیا اور انہیں وہیں موجود سیکورٹی روم میں لے گئے جہاں سے انہوں نے مبینہ طور پر بھاگنے کی کوشش کی تو ان پر فائر کیا گيا جس میں بینت سنگھ کی تو موت ہو گئی لیکن ستونت سنگھ زخمی ہونے کے باوجود بچ گئے جنہیں مقدمے کے بعد سنہ 1989 میں پھانسی دے دی گئی۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق یہ واقعہ صبح نو بج کر 10 منٹ پر پیش آيا اور انہیں وہاں سے کوئی تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایمس ہسپتال ساڑھے نو بجے لے جایا گیا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا اور ان کے جسم سے سات گولیاں نکالی گئیں جبکہ باقی گولیاں ان کے جسم سے پار نکل گئی تھیں۔ انہیں دوپہر دو بج کر 20 منٹ پر مردہ قرار دیا گیا۔
ان کی موت کا اعلان انڈیا کے سرکاری ٹی وی دُوردرشن پر نیوز پریزنٹر سلمیٰ سلطان نے کیا جبکہ اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی سمیت بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کی موت کی خبر پہلے پہل بی بی سی پر سنی۔

اندرا کو اپنی موت کا احساس ہو چلا تھا

جون میں کئی دنوں تک جاری رہنے والے آپریشن بلیو سٹار کے بعد اندرا گاندھی کی حفاظت میں اضافہ کر دیا گیا تھا اور ان کے گھر کے گرد مٹی کا ڈھیر کھڑا کیا گیا تھا تاکہ کسی بم دھماکے سے ان کی حفاظت ہو تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ’جب وہ مجھے مارنے آئیں گے تو کوئی چیز نہیں بچا سکے گی۔ جن سے میری حفاظت کی توقع کی جائے گی وہ سب سے پہلے بھاگ کھڑے ہوں گے۔‘
لیکن اپنی موت سے ایک دن قبل 30 اکتوبر کو ریاست اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور میں ایک انتخابی ریلی کے لیے ان کی تقریر ایچ وائی شاردا پرساد نے تیار کی تھی۔ تقریر کے درمیان میں اچانک انہوں نے لکھی ہوئی تقریر کے بجائے اپنی باتیں کہنی شروع کر دیں۔
انہوں نے کہا ’میں آج یہاں ہوں، کل شاید نہ رہوں۔ مجھے فکر نہیں، میں رہوں یا نہ رہوں، ملک کی فکر کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ میری لمبی عمر رہی ہے اور مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی اپنے لوگوں کی خدمت میں گزاری ہے۔ میں اپنی آخری سانس تک ایسا کرتی رہوں گی اور جب میں مروں گی تو میرے خون کا ایک ایک قطرہ بھارت کو مضبوط کرنے میں لگے گا۔‘

اندرا گاندھی کی موت کے بعد انڈیا کی سیاست یکسر بدل گئی (فائل فوٹو: فلکر)

ان کی تقریر سے لوگ حیرت میں تھے کہ آخر اندرا گاندھی نے ایسی باتیں کیوں کہیں لیکن شاید انہوں نے اپنی موت کو پہلے سے محسوس کر لیا تھا اور شاید اسی لیے ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔
اس تقریر کو ابھی 20 گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ ان کی موت کے بعد یکم نومبر کو جو سکھ مخالف فسادات شروع ہوئے، ان کے نتیجے میں دہلی میں اور پورے ملک میں ہزاروں سکھوں کی جانیں گئیں۔
ان کی موت پر 13 دنوں کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور پرچم کو نصف مستول پر رکھا گيا جبکہ برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سمیت درجنوں ممالک کے رہنماؤں اور بڑے عہدیداروں نے تین نومبر کو ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

درجنوں ممالک کے رہنماؤں اور بڑے عہدیداروں نے تین نومبر کو ان کی آخری رسومات میں شرکت کی (فائل فوٹو: برجمین امیجز)

عوام کے آخری دیدار کے لیے پہلے انہیں تین مورتی بھون میں رکھا گیا جو کہ ان کے والد اور پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی رہائش تھی پھر انہیں مہاتما گاندھی کی یادگار راج گھاٹ کے پاس شکتی ستھل پر سپردِ آتش کیا گیا۔ انہیں ان کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی نے آگ دی۔
اندرا گاندھی کی موت کے بعد انڈین ٹیم اپنا پاکستان کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس لوٹ آئی جبکہ اندرا گاندھی کی موت کے بعد انڈیا کی سیاست یکسر بدل گئی۔

شیئر: