Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور: کار حادثے میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک، ’یہ حادثہ نہیں ٹارگٹ کلنگ ہے‘

لاہور ٹریفک پولیس نے ملزم کا اعترافی ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔ فوٹو: لاہور پولیس
لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں 11 نومبر بروز سنیچر ایک کار حادثہ پیش آیا جس میں ایک کم عمر ڈرائیور کی گاڑی کی ٹکر سے دوسری گاڑی میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی موت واقع ہوئی۔
ٹریفک پولیس نے گاڑی کو ٹکر مارنے والے کم عمر ڈرائیور افنان شفقت اعوان کو موقع پر ہی گرفتار کیا جبکہ زخمیوں کو ہسپتال منقتل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے۔
ٹریفک پولیس ترجمان رانا عامر نے اُردو نیوز کو بتایا کہ یہ واقعہ ڈیفنس فیز 7 میں رات گئے پیش آیا جس میں چھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کم عمر ڈرائیور کو گرفتار کر کے گاڑی تحویل میں لے لی ہے اور ملزم نے اعترافی بیان بھی جاری کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد موقع پر موجود رفاقت علی نے تھانہ ڈیفنس (سی) میں مقدمہ درج کرایا ہے۔
مقدمے میں مدعی رفاقت علی نے مؤقف اپنایا کہ نو بجے کے قریب وہ اپنی فیملی کے ہمراہ اپنی بیٹی کے سسرال جا رہے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔
’ہم دو گاڑیوں میں سوار تھے، میرے آگے گاڑی میں چھ افراد سوار تھے جن میں میری بیگم رخسانہ رفاقت، بیٹا محمد حسنین، بہو عائشہ، پوتا محمد حذیفہ، داماد محمد اسماعیل اور نواسی اتابیہ سوار تھے۔‘
مقدمے کے متن کے مطابق جب گاڑی ڈی ایچ اے میکڈونلڈز چوک پہنچی تو آگے سے ایک کار تیز رفتاری سے آئی اور گاڑی کو ٹکر مار دی۔
’گاڑی نے قلابازیاں کھائیں اور گرین بیلٹ سے ٹکرا گئی۔ ہم نے فیملی ممبران کو ہسپتال منقتل کیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔‘
رفاقت علی چونکہ دوسری گاڑی میں سوار تھے اس لیے وہ بچ گئے تاہم ٹریفک پولیس نے موقع پر ہی ملزم کو گرفتار کر لیا۔ مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی 322/ 427 /279 دفعات شامل کی گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق رفاقت علی کی جانب سے کم عمر ڈرائیور کے خلاف قتل کے مقدمے کی درخواست دی گئی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ کم عمر ڈرائیور افنان نے دانستہ طور پر گاڑی کو ٹکر ماری جس کا مقصد گاڑی میں سوار تمام افراد کی جان لینا تھا۔

آٹھویں جماعت کا طالب علم گاڑی چلا رہا تھا جب حادثہ پیش آیا۔ فائل فوٹو: سٹی ٹریفک پولیس

اس واقعے کے بعد لاہور ٹریفک پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر ملزم کا ایک اعترافی بیان ویڈیو کی صورت میں جاری کیا۔
ویڈیو میں آٹھویں جماعت کے طالب علم افنان شفقت نے بتایا کہ وہ اپنے تین چار دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے جا رہا تھا، ’گاڑی کی رفتار 110 کلو میٹر فی گھنٹہ کے قریب تھی کہ اچانک ایک گاڑی سامنے آگئی اور حادثہ ہوگیا۔‘ انہوں نے بیان دیا کہ ’دونوں سائیڈز پر بیرئیرز تھے اور گاڑی نکالنے کا ہمارے پاس راستہ نہیں تھا۔ اس لیے واقعہ پیش آیا۔‘
’یہ حادثہ نہیں ٹارگٹ کلنگ ہے‘
مدعی مقدمہ رفاقت علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پہلے پولیس کی جانب سے تعاون نہیں کیا جا رہا تھا۔’میں کل بہت دلبرداشتہ تھا لیکن اب ڈی آئی جی پولیس نے ہماری بہت مدد کی۔ میری پوری بات بھی سنی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مقدمے میں دہشت گردی کے مقدمات بھی درج کیے جائیں کیونکہ یہ حادثہ نہیں ٹارگٹ کلنگ ہے۔‘
 پولیس ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عمران کشور نے حادثے کی ناقص تفتیش پر تفتیشی افسر کو معطل کردیا ہے۔ سب انسپکٹر مرتضٰی اور تفتیشی افسر عمر دونوں کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
دوسری جانب حادثے میں ملوث کم عمر ڈرائیور ملزم افنان شفقت اعوان نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ انہوں نے درخواست میں نگراں وزیر اعلیٰ، سی سی پی او لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
 درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ ’ملزم کی عمر 18 برس سے کم ہے اور جووینائل کورٹ میں ملزم کا ٹرائل ہو سکتا ہے، آئین پاکستان ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ موجودہ کیس میں غیر ضروری طور پر 302 کی دفعات لگا دی گئی ہیں۔‘

مدعی رفاقت علی نے درج مقدمے میں مؤقف اپنایا ہے کہ گاڑی کو جان بوجھ کر ٹکر ماری گئی۔ فوٹو: سٹی ٹریفک پولیس

کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائیاں
اس واقعے کے بعد لاہور ٹریفک پولیس کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف متحرک ہو گئی ہے۔
سٹی ٹریفک پولیس آفیسر(سی ٹی او) مستنصر فیروز نے ایکس پر ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’اب کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف چالان کے بجائے مقدمہ درج ہوگا جس کے باعث اُن کو سرکاری نوکری کے حصول اور تعلیمی سفر میں مشکلات درپیش ہوں گے۔‘
سٹی ٹریفک پولیس کے ترجمان رانا عامر نے اُردو نیوز کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مقدمہ درج ہونے کی صورت میں کم عمر ڈرائیوروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر جرم ثابت ہوگیا تو ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا یا تین ماہ قید کی سزا ہوگی۔ اس کے ساتھ ایسے مجرمان کا کریمنل ریکارڈ بن جاتا ہے اور ان کو سرکاری نوکری کے حصول میں مسائل کا سامنا ہوگا۔‘
سٹی ٹریفک پولیس کے بقول ایسے مجرمان کسی بھی ملک کے لیے ویزا حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ’ان کو رہائش کے لیے جگہ بھی نہیں سکے گی۔ شناختی کارڈ نمبر جہاں بھی درج کیا جائے گا اس کا کریمنل ریکارڈ سامنے آجائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موٹر وہیکل آرڈیننس ٹریفک پولیس کو کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ ’کوئی بھی ڈرائیور جب بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ میں غفلت برتتا ہے تو ہم اس کے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔‘
ماہر قانون میاں عبدالمتین فوجداری و دیوانی معاملات کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ ان کے بقول ’ایسے ڈرائیورز کے خلاف تو کارروائی ہوتی ہی ہے لیکن ایسے جرائم میں اگر کم سن ڈرائیورز پکڑے جاتے ہیں تو ان کے والدین کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اگر جرم ثابت ہو تو بچے کو پروبیشن پیریڈ پر معاف کر دیا جاتا ہے لیکن والدین کو سزا ملتی ہے۔‘
انہوں نے ٹریفک پولیس کی کارروائی کے حوالے سے قانونی زاویے بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس پاکستان پینل کوڈ کے دفعات کے تحت کارروائی کرتی ہے۔ ’پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 279 کے تحت کوئی بھی ڈرائیور اگر اپنی یا کسی اور انسان کی جان کے لیے خطرہ بنے یا ڈرائیونگ کے دوران غفلت و لاپرواہی برتے تو اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔‘

ٹریفک پولیس نے تین دنوں میں کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف 998 مقدمات درج کیے ہیں۔ فوٹو: سٹی ٹریفک پولیس

ٹریفک پولیس ترجمان کے مطابق سٹی ٹریفک پولیس نے اس واقعے کے بعد متعدد مقامات پر ناکے لگا دیے ہیں اور کم عمر ڈرائیورز کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تین روز میں اب تک سٹی ٹریفک پولیس نے اس ضمن میں کُل 998 مقدمات درج کیے ہیں جبکہ سینکڑوں گاڑیاں بھی تحویل میں لی ہیں۔‘
حادثات کا روک تھام مشکل کیوں؟
ٹریفک پولیس ترجمان سے سوال کیا گیا کہ ایسے واقعات رونما ہونے سے قبل ہی ان کی روک تھام کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ٹریفک پولیس کی بنیادی ذمہ داری ٹریفک کو رواں رکھنا ہوتا ہے اس کے بعد قانون پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے حوالے سے آگاہی دینا ہے۔
’پوری دنیا میں جب ایسے حادثات ہوتے ہیں تو کوئی بھی شعبہ ہو اس پر ری ایکٹیو ایکشن لیا جاتا ہے اور ہم نے بھی ایسا ہی کیا ہے. ہم نے ہیلمٹ نہ پہنے کے خلاف بائیس لاکھ چالان کیے ہیں۔ اگر اس کے باوجود کوئی ہیلمٹ نہیں پہن رہا تو اُن کے لیے زیادہ سے زیادہ ہم یہی کر سکتے ہیں کہ سزا بڑھا دی جائے یا نفسیاتی طور پر ان کو قانون پر عمل درآمد کے لیے تیار کیا جائے۔‘
اس حوالے سے ماہر قانون ایڈوکیٹ میاں عبدالمتین بتاتے ہیں کہ پاکستان میں قوانین کی کمی نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ عمل درآمد کرنے کا ہے۔
’ٹریفک وارڈن کے پاس اختیار تو ہے لیکن وہ کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے، ان کے پاس موقع پر ہتھکڑی نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنی حفاظت کے لیے پستول ہوتی ہے۔ جب بھی ٹریفک وارڈن کسی کو روکنے کا اشارہ کرتا ہے تو وہ بھاگ نکلتا ہے یا وارڈن کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔‘

شیئر: