Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فوجی عدالتیں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف نہیں‘، وفاقی حکومت نے اپیل دائر کر دی

اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کر دی ہیں۔
جمعے کو وفاقی حکومت نے بذریعہ سیکریٹری قانون جبکہ وزارت دفاع نے سیکریٹری دفاع کے ذریعے اپیلیں دائر کیں۔
اپیلوں میں وفاق اور وزارت دفاع نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59 (4) بحال کرنے کی استدعا کی ہے۔
وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اپیلوں پر حتمی فیصلے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا جائے۔
اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں۔
اپیلوں کے مطابق آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
سپریم کورٹ میں حکومت کی اپیل میں حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ فوجی عدالتیں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف نہیں۔
وفاق اور وزارت دفاع نے سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
وفاق اور وزارت دفاع کے ساتھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی ہیں۔
23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار دیتے ہوئے نو مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فوجی تحویل میں تمام ملزمان کے مقدمات سول عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ متفقہ طور پر دیا، تاہم جسٹس یحیی آفریدی نے سیکشن ٹو ڈی ون کے بجائے آرمی ایکٹ کی سویلین سے متعلق تمام شقوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

شیئر: