Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

التوا کا شکار مقدمات ثالثی کے ذریعے دنوں میں کیسے حل ہو سکتے ہیں؟

دنیا بھر میں زیر التوا مقدمات کے حل کے لیے ثالثی کا متبادل نظام اپنایا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)
67 برس کی سکینہ حیدر آباد میں ایک کرائے کے چھوٹے سے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ انہوں نے پیسے جمع کر کے قسطوں پر اپنا پلاٹ خریدا اور شہر کے ایک مقامی بلڈر کو تمام اقساط بھی ادا کر دیں مگر بلڈر نے پلاٹ کی آخری قسط چار لاکھ 70 ہزار روپے کی سلپ ظاہر نہ کر کے سکینہ کے نام پلاٹ رجسٹر نہیں کیا جس کے بعد انہوں نے سول کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ تین سال کے عرصہ میں تین سے چار لاکھ وکلا کی فیس بھرنے کے باوجود مقدمے کا فیصلہ نہ ہو سکا۔
سکینہ نے تنازعے کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے لیے حکومت کے تعینات کردہ ثالث سے رجوع کیا۔ 
سکینہ ثالثی کے ذریعے تین سال سے التوا کا شکار یہ مقدمہ 10 دنوں کے اندر حل کروانے میں کامیاب ہوئیں۔
حیدر آباد میں تعینات ثالث محمد زوہیب کے مطابق بیوہ خاتون سکینہ کے کیس کو ثالثی کے ذریعے حل کروا کر رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی۔
محمد زوہیب کہتے ہیں کہ ایسے کئی سول مقامات ہیں جنہیں ثالثی کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔
پاکستان کی عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اردو نیوز کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 22 لاکھ ہے اور ان کو حل کرنے کے لیے ججوں کی تعداد 4 ہزار سے بھی کم ہے۔
دنیا بھر میں زیر التوا مقدمات کے حل کے لیے ثالثی کا متبادل نظام اپنایا جا رہا ہے جس سے سول و تجارتی مقدمات جلد حل کیے جا سکتے ہیں۔
چین نے سال 2020 میں 20 لاکھ کے قریب مقدمات ثالثی مراکز میں بھیجے۔ برطانیہ میں سالانہ 20 ارب پاؤنڈ کے مقدمات ثالثی کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔ ترکیہ میں بھی کئی مقدمات ثالثی کے ذریعے حل کروائے جا رہے ہیں۔

ثالثی کا عمل ہے کیا؟

ثالثی نظام میں تربیت یافتہ ثالث دو اختلافی فریقین کے درمیان بات چیت میں سہولت فراہم کرتا ہے اور انہیں ایک حل کی طرف لے کر جاتا ہے۔
ثالث حکومت کا مقرر کردہ اور معاشرے کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا تعلیم یافتہ اور کم از کم 40 گھنٹے ثالثی کی تربیت حاصل کرنے والا شخص ہوتا ہے جس کے پاس خود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا بلکہ کورٹ کے قانون کے تحت دو فریقین کو مسئلے کے حل کی طرف لے جانا ہوتا ہے۔

سینیئر قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق ثالثی کے نظام کی موجودہ ہیئت فائدہ مند نہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں ثالثی کا نظام کیسے کام کر رہا ہے؟

ثالثی بنیادی طور پر صوبوں کا معاملہ ہے جس کے لیے پاکستان میں قانون سازی کی جا رہی ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبوں میں قانون سازی کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں اس حوالے سے بل فی الحال اسمبلی سے منظور نہیں ہوا۔
ان تمام قوانین کے تحت متعلقہ عدالتیں بھی مختلف مقدمات ثالث کو بھیج سکتی ہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ ان مقدمات میں سزا تین سال سے کم ہو اور وہ فوجداری نہ ہوں۔ فریقین خود بھی عدالت جانے سے پہلے ثالثی کے ذریعے تنازعات حل کروا سکتے ہیں۔
لیگل ایڈ سوسائٹی جس کی بنیاد سابق جج سپریم کورٹ آف پاکستان ناصر اسلم زاہد نے 2013 میں رکھی، کے پروگرام ڈیلیوری سپیشلسٹ محمد شاہ زر الٰہی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سول اور تجارتی مقدمات جن کے حل کے لیے عدالتوں میں 15 سال تک لگ جاتے ہیں، وہ ثالثی کے ذریعے 10 دنوں میں حل کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں ثالث کو بھیجے گئے مقدمات میں سے اب تک 80 فیصد مقدمات کو کامیابی سے حل کیا جا چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’اب تک صرف سندھ میں ہی 2 ہزار سے زیادہ آگاہی سیشنز کا انعقاد کیا جا چکا ہے جن کے تحت 30 ہزار سے زیادہ شہریوں کو ثالثی کے متبادل حل کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی۔ باقی صوبوں میں بھی شہریوں کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ 
ماہرین قانون سمجھتے ہیں کہ ثالثی کے نظام کے فروغ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے مگر حکومتی سطح پر ثالثی کے متبادل نظام کے فروغ اور اُس کے حوالے سے موجود ہچکچاہٹ کو ختم کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت ملک میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 22 لاکھ ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کے مطابق پاکستان میں ثالثی کے ذریعے سول و تجارتی مقامات کے حل کا ماڈل اپنانا ایک خوش آئند بات ہے۔
حکومت نے اس سلسلے میں قانون سازی بھی عمل میں لائی ہے تاہم ثالث کی اہلیت اور غیر جانب داری کا اعلیٰ معیار برقرار رکھنا ضروری ہے تا کہ شہری ان پر اعتبار کر سکیں۔
سینیئر قانون دان سلمان اکرم راجہ کے مطابق ’وہ ذاتی طور پر ثالثی کے عمل سے منسلک تو نہیں رہے تاہم ثالثی کے نظام کی موجودہ ہیئت فائدہ مند نہیں۔ حکومت کو ایسے ثالثی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جو قابل اعتبار ہوں اور ان مراکز کی موجودگی کے حوالے سے عوام کو آگاہی بھی فراہم کی جانی چاہیے۔‘

شیئر: