Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: گجرات ہائی کورٹ میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی کی درخواست خارج

گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس انیرُودھا مائی پر مشتمل بینچ نے اس درخواست کو خارج کر دیا (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
انڈیا کی ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی کی درخواست خارج کر دی ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق گجرات ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ اذان کا دورانیہ 10 منٹ سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس سے ’نوائس پَلوشن‘ یعنی شور کی آلودگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
یہ درخواست گاندھی نگر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دھرمیندرا پرجاپتی اور سیاسی مذہبی جماعت بجرنگ دَل کے رہنما شکتی سنھ زلا کی جانب سے دی گئی۔
دونوں افراد نے اپنی درخواست میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پر اعتراض اٹھایا، تاہم گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس انیرُودھا مائی پر مشتمل بینچ نے اس درخواست کو خارج کر دیا۔
اس درخواست میں ڈاکٹر دھرمیندرا نے موقف اپنایا کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان کی وجہ سے ان کے ہسپتال میں مریضوں کو کوفت ہوتی ہے۔
درخواست کے جواب میں بینچ نے ریمارکس دیے کہ ’ہم اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے کہ انسانی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے سے شور کی آلودگی کیسے پیدا ہو سکتی ہے جو کے عوام کے لیے مضر صحت ہو۔‘
بینچ کی جانب سے درخواست گزار کو حکم دیا گیا کہ وہ اس بات کا سائنسی طور پر ثبوت دیں کہ لاؤڈ سپیکر سے دی جانے والی اذان کے ڈیسیبلز سے شور کی آلودگی پھیلتی ہے۔
اس کیس کے دوران بینچ نے درخواست گزاروں سے یہ پوچھا کہ کیا آیا مندروں میں پوجا کے دوران بجنے والی گھنٹیاں اور گھنٹوں کی آواز صرف مندروں کی چار دیواری تک ہی محدود رہتی ہے؟
بینچ نے مزید کہا کہ ’ہم اس کیس کو مزید نہیں سن سکتے۔ یہ برسوں سے کی جانے والی عبادت ہے اور یہ صرف 5 سے 10 منٹ کے لیے ہوتی ہے۔‘
’آپ کے مندروں میں صبح تین بجے سے عبادات شروع ہو جاتی ہیں جس میں ڈھولک اور موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے، کیا اس سے شور نہیں پھیلتا؟‘

شیئر: