Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دورۂ آسٹریلیا: کیا شان مسعود مشتاق محمد کے راستے پر چل سکیں گے؟  

دورۂ آسٹریلیا میں بابر اعظم کو مضبوط آسٹریلوی بولنگ کے خلاف اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا ہوں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کرکٹ پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب ٹیم جیتنا بُھول چکی تھی، میچ ڈرا کرنا ہی کپتان اپنی بڑی کامیابی سمجھتے، 1967 سے 1975 کے درمیان پاکستان صرف ایک ٹیسٹ میچ جیت سکا۔
تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت انتخاب عالم سے مشتاق محمد کو منتقل ہوئی تو انہوں نے یہ سوچ متعارف کرائی کہ میچز جیتنے کے لیے کھیلے جاتے ہیں۔
انہوں نے فاسٹ بولرز کا زیادہ مؤثر استعمال کیا، وہ حریف ٹیموں کو نفسیاتی دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے اور یہیں سے پاکستان کرکٹ کے سُنہرے دور کا آغاز ہوا۔
انتخاب عالم نے 17 ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی قیادت کی مگر صرف ایک میچ جیت سکے جبکہ مشتاق محمد کی زیرِقیادت پاکستانی ٹیم نے 19 میں سے 8 ٹیسٹ میچز جیتے۔
اس ٹیم میں جہاں آصف اقبال، ظہیر عباس، مشتاق محمد اور ماجد خان جیسے تجربہ کار کھلاڑی تھے وہیں عمران خان اور جاوید میانداد جیسے نوجوان سٹارز کی شمولیت نے پاکستان کو ملک سے باہر بھی کامیابی دلوانا شروع کردی۔
پاکستان کا پہلا دورہ آسٹریلیا اور ڈان بریڈمین کی حنیف محمد سے فرمائش 
پاکستان نے پہلی بار آسٹریلیا کا دورۂ لِٹل ماسٹر حنیف محمد کی قیادت میں 1964 میں کیا تھا۔
 یہ دورہ صرف ایک ٹیسٹ میچ پر مشتمل تھا جو میلبرن میں کھیلا گیا، ساؤتھ آسٹریلیا میں پریکٹس میچ سے قبل سر ڈان بریڈمین پاکستانی ٹیم کی پریکٹس دیکھنے نیٹ پر آئے۔
حنیف محمد اپنی کتاب ’حنیف محمد: پلیئنگ فار پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہم اُنہیں (ڈان بریڈمین)کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، میں اُنہیں ڈریسنگ رُوم لے کر گیا جہاں تمام کھلاڑیوں نے اُن سے آٹوگراف لیا۔‘
’سر ڈان بریڈمین نے بتایا کہ وہ بطورِ خاص مجھے دیکھنے کے لیے آئے تھے کیونکہ میرے متعلق انہوں نے بہت کچھ سُن رکھا تھا، انہوں نے کہا کہ میں کل تمہاری سینچری دیکھنا پسند کروں گا۔‘ 

کپتان شان مسعود کے پاس شاہین آفریدی کے علاوہ کوئی تجربہ کار بولر موجود نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حنیف محمد نے ڈان بریڈمین کی خواہش پوری کی اور ایڈیلیڈ اوول میں 110 رنز کی اننگز کھیلی۔ دورے کے دوران میلبرن میں کھیلا گیا واحد ٹیسٹ میچ ڈرا ہوا، حنیف محمد نے پہلی اننگز میں 104 اور دوسری اننگز میں 93 رنز بنائے۔ 
 ڈینس لِلی کا عمران خان پر طنز، پاکستان کا تاریخی دورۂ آسٹریلیا  
12 سال بعد 1976 کے اواخر میں پاکستانی ٹیم تیسری بار دورۂ آسٹریلیا پر پہنچی تو آسٹریلوی کھلاڑی پاکستان کو زیادہ بڑا خطرہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ ڈینس لِلی نے اپنے اخباری کالم میں پاکستان کو آسان حریف قرار دیا۔
عمران خان اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں بتاتے ہیں کہ ڈینس لِلی نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان کے پاس کچھ اچھے بیٹسمین ہیں اور ان میں اُنہیں (یعنی عمران خان کو) بھی شامل کیا۔‘
’تاہم جہاں تک بولنگ کا سوال ہے ڈینس لِلی نے عمران خان کو ایسا میڈیم پیسر قرار دیا جو کسی کو زیادہ پریشان نہیں کر سکے گا۔ 
عمران خان کا نیا بولنگ ایکشن، سڈنی میں یادگار سپیل  
 ڈینس لِلی اور جیف تھامسن کی جوڑی سے دنیا کے بڑے بلے باز بھی خوف زدہ تھے مگر یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ جیف تھامسن پہلے ہی میچ میں خطرناک انجری کی وجہ سے سیریز سے باہر ہوگئے۔

دورۂ آسٹریلیا پاکستانی بیٹرز اور بولرز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے (فائل فوٹو: آئی سی سی)

یہ میچ ڈرا ہوگیا، میلبرن میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ آسٹریلیا نے 348 رنز سے جیت لیا تاہم سڈنی میں پاکستانی ٹیم ایک نئے رُوپ میں نظر آئی۔ 
نئے بولنگ ایکشن نے نوجوان عمران خان کو میڈیم فاسٹ بولر سے خطرناک فاسٹ بولر میں تبدیل کردیا تھا۔ پاکستان نے آسٹریلیا کو پہلی اننگز میں صرف  211 رنز پر آؤٹ کردیا، عمران خان نے 6 وکٹیں حاصل کیں۔
آصف اقبال کے شاندار 120 رنز کی بدولت پاکستان نے 360 رنز بناکر آسٹریلیا پر 149 رنز کی برتری حاصل کرلی، دوسری اننگز میں عمران خان نے ایک بار پھر 6 شکار کیے اور آسٹریلیا صرف 180 رنز بناسکا۔  
پاکستان نے 32 رنز کا ہدف صرف دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرکے آسٹریلیا میں پہلی بار ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب حاصل کی۔
سڈنی ٹیسٹ نے جہاں عمران خان کو پہچان دی وہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کا موازنہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی مضبوط ٹیموں سے شروع ہوگیا۔ 
 کیا شان مسعود بھی مشتاق محمد بن سکیں گے؟  
سنہ 1977-1976 کا دورۂ آسٹریلیا پاکستان کرکٹ کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا تھا، آج 47 سال بعد پاکستانی ٹیم شان مسعود کی قیادت میں آسٹریلیا میں موجود ہے تو ٹیسٹ ٹیم عالمی ریکنگ میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 

سڈنی میں عمران خان کی عمدہ بولنگ کی بدولت پاکستان نے پہلی مرتبہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیتا (فائل فوٹو: پی سی بی)

آخری 12 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کو 5 میں شکست ہوئی اور صرف سری لنکا کے خلاف 3 میچز میں کامیابی ملی۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ پاکستان کو اس کے میدان میں شکست دے کر گئے۔  
پاکستان نے آسٹریلیا میں آخری بار 1995 میں ٹیسٹ میچ جیتا تھا، اس کے بعد اُسے لگاتار 14 ٹیسٹ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔  
 شان مسعود کے لیے بڑا چیلنج  
پاکستان نے آسٹریلیا میں 4 ٹیسٹ میچز جیت رکھے ہیں، ان میں سے 3 میچز میں کامیابی بولرز نے دلوائی۔
سنہ 1997 کے سڈنی ٹیسٹ میں عمران خان، 1979 کے میلبرن ٹیسٹ میں سرفراز نواز اور 1995 کے سڈنی ٹیسٹ میں لیگ سپنر مشتاق احمد نے جیت پاکستان کے نام کی۔
 تاہم بعد کے دوروں میں پاکستانی بولرز آسٹریلیا میں نمایاں کھیل پیش نہ کرسکے۔ 
اظہر علی کی قیادت میں پاکستانی ٹیم آخری بار 2019 میں آسٹریلیا گئی تو دونوں میچز میں اننگز کی شکست ہوئی۔ 

پاکستان نے آخری مرتبہ وسیم اکرم کی کپتانی میں 1996-1995 کے دورۂ آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیتا تھا (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

برسبین میں آسٹریلیا نے پاکستان بولرز کے خلاف واحد اننگز میں 580 رنز کا پہاڑ کھڑا کیا جب کہ ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے صرف تین وکٹوں پر 589 رنز بنائے۔ 
شان مسعود کے پاس شاہین آفریدی کے علاوہ کوئی تجربہ کار بولر موجود نہیں ہے، آسٹریلیا میں جہاں پچز فاسٹ بولرز کو مدد دیتی ہیں پاکستانی کپتان کو ناتجربہ کار بولرز پر انحصار کرنا ہوگا۔ 
کیا پاکستان بیٹنگ لائن پر انحصار کرے گا؟
آسٹریلیا میں جیت اُس ٹیم کو ملتی ہے جس کے بولرز 20 وکٹیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر ناتجربہ کار بولنگ اٹیک کی وجہ سے پاکستان کا زیادہ انحصار بیٹرز پر ہوگا۔ 
مڈل آرڈر میں بابر اعظم اور سعود شکیل بیٹنگ لائن کی اصل طاقت ہوں گے۔ آسٹریلیا میں کھیلے گئے گذشتہ پانچ ٹیسٹ میچز میں بابر اعظم کی بیٹنگ اوسط 28 رنز فی اننگز رہی ہے۔
اس سیریز میں جہاں شان مسعود نے خود کو بطور کپتان منوانا ہے وہیں بابر اعظم کو مضبوط آسٹریلوی بولنگ کے خلاف اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا ہوں گے۔ 

شیئر: