Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں سکول پر اسرائیلی بمباری، الجزیرہ کا کیمرا مین ہلاک

صحافتی تنظیم کا کہنا ہے کہ اب تک غزہ میں 64 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
غزہ میں ایک سکول پر بمباری میں اسرائیلی بمباری سے الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کے لیے کام کرنے والا کیمرہ مین ہلاک اور بیورو چیف زخمی ہو گیا۔
خبر رساں ادارے اے پی نے الجزیرہ نیٹ ورک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ واقعہ جمعے کو اس وقت پیش آیا جب ایک سکول کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا۔
کیمرہ مین سامر ابو دقہ اور بیورو چیف وائل الدحدوح خان یونس کے علاقے میں موجود اس سکول میں کوریج کے لیے گئے تھے جہاں دن کے آغاز میں فضائی حملہ کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق وہ دونوں اس وقت وہاں موجود تھے جب ایک اسرائیلی ڈرون نے بمباری کر دی۔
اس کے نتیجے میں وائل کو کندھے پر شدید زخم آئے جبکہ ابو دقہ اس حالت میں زمین پر گرے کہ ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔
وائل نے ہسپتال سے اپنے نیٹ ورک کو فون پر بتایا کہ وہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تاہم انہوں نے وہاں پر کافی لوگوں کو زخمی حالت میں دیکھا۔
انہوں نے ابو دقہ کو تلاش کرنے کی اپیل بھی کی جس پر وہاں ایمبولینس بھجوانے کا وعدہ کیا گیا۔
انہوں نے کیمرہ مین کے بارے میں بتایا کہ ‘وہ شدید زخمی تھا اور مدد کے لیے پکار رہا تھا۔‘
بعدازاں شام کو الجزیرہ ٹی وی کی جانب سے بتایا گیا کہ ایک ایمبولیس ابو دقہ کو نکالنے کے لیے سکول بھیجی گئی مگر اسے واپس آنے پڑا کیونکہ سڑکیں عمارتوں کے ملبے کی وجہ سے بلاک تھیں۔
ابو دقہ کو اسی حالت میں کئی گھنٹے تک رہنا پڑا اور جب شہری دفاع کے اہلکار ان تک پہنچے تو وہ دم توڑ چکے تھے۔
اقوام متحدہ کے لیے فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بتایا کہ ’اسرائیل ان لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو اس کے جرائم کو دنیا کے سامنے لائے، یعنی صحافی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سامر ابو دقہ کے لیے دکھی ہیں، جو اسرائیلی بمباری سے زخمی ہوئے اور چھ گھنٹے تک ان کا خون بہتا رہا جبکہ ایمبولینسز کو وہاں پہنچنے نہیں دیا گیا۔‘
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ سامر 64 ویں صحافی ہیں جو حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کا نشانہ بنے ہیں۔
مرنے والوں میں 57 فلسطینی، چار اسرائیلی اور تین لبنانی صحافی شامل ہیں۔
45 سال سامر کا تعلق خان یونس کے علاقے سے تھا اور انہوں نے 2004 میں الجزیرہ کو جوائن کیا تھا اور کمیرہ مین اور ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔
ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
واقعے کے بعد اے پی کی جانب سے اسرائیلی فوج سے رابطہ کیا گیا تاہم وہاں سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
قطر کے نیوز نیٹ ورک الجزیرہ نے ایک بیان میں واقعے کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا گیا ہے اور کہا ہے کہ ’اسرائیل منظم انداز میں الجریزہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔‘

شیئر: