Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے مزمل کاکڑ لاہور کے اہم ترین حلقے سے انتخاب کیوں لڑ رہے ہیں؟

مزمل کاکڑ کا خاندان بلوچستان کے قلعہ عبد اللہ میں آباد ہے اور ان کے والد زمینداری کرتے ہیں (فائل فوٹو: ایچ کے ایم)
انتخابات کی گہما گہمی ملک بھر میں شروع ہو چکی ہے۔ لاہور کا حلقہ این اے 127 اس وقت بہت سی وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا اس حلقے سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ ہی حیران کن ہے کیوں کہ یہ حلقہ گذشتہ دو دہائیوں سے مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور وہ اب بھی اس حلقے سے اپنا مضبوط امیدوار اتارنے پر غور کر رہی ہے۔
تاہم حلقے کے ہر گلی کوچے میں الگ الگ سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز آویزاں ہیں مگر بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے مزمل کاکڑ کے اس حلقے سے انتخاب لڑنے کے فیصلے نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔ حقوق خلق پارٹی کے رہنما مزمل کاکڑ کے اردگرد ہمہ وقت حلقے کے عوام سرخ جھنڈے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور ’قدم بڑھاؤ مزمل، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔

مزمل کاکڑ کون ہیں؟

سال 2011 میں مزمل کاکڑ لاہور آئے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔
وہ اس سے قبل پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک بھر میں طلبہ سیاست میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون ایجوکیشن ڈویلپمنٹ موومنٹ کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان بھر کی طلبہ تنظیموں کے اتحاد کے کنوینر کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔
مزمل کاکڑ نے 2019 میں دیگر طالب علموں کے ساتھ مل کر طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے 53 شہروں میں احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
انہوں نے اس کے علاوہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کے لیے سات ہزار کتابیں جمع کر کے لائبریریز بھی قائم کی ہیں۔
وہ عام انتخابات میں حقوق خلق پارٹی کی جانب سے لاہور کے حلقہ این اے 127 سے نامزد امیدوار ہیں جبکہ ان کے ساتھ ڈاکٹر عمار علی پی پی 160 سے صوبائی اسمبلی کے نامزد امیدوار ہیں۔

’یہ حلقہ لاہور کا بلوچستان ہے‘

مزمل کاکڑ نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ گذشتہ کئی برسوں سے اس حلقے سے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
’ہم نے حقوق خلق موومنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع کی تھی جسے ہم نے 2021 میں ایک سیاسی جماعت کی شکل دے دی اور ہم اب انتخابی میدان میں موجود ہیں۔
مقامی افراد این اے 127 میں ڈھول بجاتے ہوئے ان کو ہار پہنا رہے تھے اور علاقے کے بچے اور بوڑھے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
مزمل کاکڑ بتاتے ہیں کہ ’انہوں نے بلوچستان کے بجائے لاہور سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ وہ ایک عرصے سے یہاں متحرک ہیں اور یہاں کی محرومیوں میں بلوچستان کا عکس دیکھتے ہیں۔‘
’میں طلبہ سیاست میں بھی متحرک تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہاں بھی بلوچستان کی طرح ہی محرومیاں ہیں۔ مجھے لگا کہ لاہور چونکہ ایک بڑا شہر ہے یہاں اگر یہ مسائل حل ہو جائیں تو ہم اس حلقے کو پورے پاکستان کے لیے ایک مثال بنا سکتے ہیں۔ یہ حلقہ لاہور کا بلوچستان ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں (فائل فوٹو: فیس بک، پیپلز پارٹی)

مزمل کاکڑ کے بقول یہ محنت کشوں کا حلقہ ہے۔ یہاں زیادہ تر تعداد ان محنت کشوں کی ہے جو پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے ہیں۔ ان ورکرز کے بے شمار مسائل ہیں، یہاں گذشتہ 40 برسوں میں ایک بھی سرکاری سکول نہیں بنا، یہاں کوئی ہسپتال ہے اور نہ ہی پورے علاقے میں کوئی قبرستان ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’این اے 127 میں لوگوں نے گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی موٹر بائیکس اور موبائل تک بیچ دیے ہیں۔ لوگ بے روزگاری کی وجہ سے منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ یہ سارے مسائل بلوچستان میں بھی ہیں تو اسی لیے میں نے اس حلقے کا انتخاب کیا۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ دنوں حلقے کا دورہ بھی کیا تھا۔
مزمل کاکڑ، بلاول بھٹو کے دورے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’یہاں کے لوگوں کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے۔ بلاول تو ابھی یہاں آئے ہیں۔ ان کی سیاست مفادات پر مبنی ہے جبکہ ہم محنت کشوں کے حقوق کے لیے نکلے ہیں۔

’ہم محنت کشوں کے حقوق کے لیے نکلے ہیں‘

اس سوال پر کہ بلوچستان سے آئے ہوئے نوجوان کا لاہور میں انتخاب لڑنا کیسا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا ہر نوجوان چاہے وہ بلوچستان سے ہو گلگت سے ہو یا قبائلی علاقے سے ہو، وہ سیاست میں حصہ لے سکتا ہے اور کسی بھی حلقے سے انتخاب لڑ سکتا ہے۔
’موروثی سیاست کے بجائے اگر ایک عام شہری اٹھ کر آتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ شہباز شریف اگر سندھ سے الیکشن  لڑ سکتے ہیں یا بلاول بھٹو لاہور یا خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑ سکتے ہیں تو میں بطور عام شہری کیوں الیکشن نہیں لڑ سکتا؟
مزمل کاکڑ کا خاندان بلوچستان کے قلعہ عبد اللہ میں آباد ہے۔ ان کے والد اپنے گھر کے قریب زمینداری کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح انتخابی مہم پر پیسہ نہیں لگا سکتا لیکن عوام کے حقوق کی جنگ تو لڑ سکتا ہوں اور میں یہ سب عوامی طاقت کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہوں۔

مزمل کاکڑ اپنی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر این اے 127 میں کئی برسوں سے متحرک ہیں (فائل فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے خلاف کئی لوگوں نے مختلف حربے استعمال کیے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے بار بار پولیس اہلکار ہمیں تنگ کرتے رہے اور ہم سے دستاویزات مانگتے رہے۔ ہم جلسہ کر رہے تھے وہاں بھی پولیس کی بھاری نفری اس لیے آگئی تاکہ ہماری تحریک کو نقصان پہنچایا جائے۔
اس سوال پر کہ کیا انہیں مقامی سطح پر لوگ سپورٹ کر رہے ہیں اور اگر سپورٹ کر رہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
مزمل کاکڑ بتاتے ہیں کہ ’یہ حلقہ درحقیقت ’منی پاکستان‘ ہے ۔ یہ ایک انڈسٹریل ایریا ہے، جہاں پاکستان بھر سے لوگ محنت مزدوری کے لیے آباد ہیں۔ یہاں پشتونوں سمیت مسیحی برادری کے لوگ بھی آباد ہیں۔ ہمارے پاس جو بھی لوگ آتے ہیں وہ محنت کش ہوتے ہیں اور انہیں ہماری جدوجہد میں اپنے حقوق کے حصول کا راستہ دکھائی دیتا ہے جس کے باعث وہ بغیر کسی تعصب کے ہمیں سپورٹ کر رہے ہیں۔

مزمل کاکڑ پرامید ہیں کہ ’وہ اس حلقے کے عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عمار علی جان کے کاغذات نامزدگی پیر کے روز ٹریبیونل نے منظور کیے۔ اس خوشی میں مقامی افراد اکٹھے ہوئے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
مزمل کاکڑ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’ہم ان لوگوں کے ساتھ مشکلات میں کھڑے ہیں اس لیے آج ہماری خوشی ان کے لیے نظریاتی خوشی ہے اور وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔'

’ہم کسی پنجابی یا پشتون کی سیاست نہیں کرتے‘

پنجاب کے حلقے پی پی 160 سے حقوق خلق پارٹی کے نامزد امیدوار عمار علی جان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ کسی پنجابی یا پشتون کی سیاست نہیں کرتے بلکہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی سیاست کرتے ہیں۔‘
’ہم محنت کشوں کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں، اس حلقے سے اگر لاڑکانہ کے بلاول بھٹو الیکشن لڑ سکتے ہیں، حافظ آباد کے عطا تارڑ انتخاب لڑ سکتے ہیں تو بلوچستان کے مزمل خان کاکڑ کیوں نہیں؟ مزمل پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ وہ نادہندہ نہیں ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور انہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز ہی اس حلقے کے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے کیا ہے۔
مزمل کاکڑ کے مطابق ’ہم پرامید ہیں کہ اس حلقے کے عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہاں کے عام شہریوں کو طبقاتی اور شناختی بنیادوں پر کئی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ہمیشہ متحد رہے لیکن 90 فیصد عوام کو تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہم صرف ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، ہم اس تقسیم، اس تعصب اور نفرتوں پر مبنی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہم آٹھ فروری کو یہ ثابت کر کے دکھائیں گے۔‘

شیئر: