Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی عدالتی انصاف میں نسل کشی کی سماعت، اسرائیل نے اپنا دفاع کیا

عالمی عدالت انصاف میں مقدمے کی سماعت 11 جنوری کو شروع ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل نے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں جنوبی افریقہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو جھوٹ پر مبنی اور ’انتہائی مسخ شدہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں سماعت کے دوسرے دن اسرائیل نے اپنے دفاع میں بیان دیا۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالتی انصاف میں اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔
جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائی فلسطینیوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کی مہم ہے۔  
اسرائیل نے ججوں سے درخواست کی ہے کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائیاں روکنے کی درخواست کو مسترد کیا جائے کیونکہ اگر اسرائیل فوجی کارروائیوں کو روکتا ہے تو پھر اپنا دفاع نہیں کر سکے گا۔
جنوبی افریقہ جس نے دسمبر میں عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، جمعرات کو ججز سے مطالبہ کیا کہ ہنگامی اقدامات نافذ کر کے عدالت اسرائیل کو غزہ میں فوری طور پر جنگ بند کرنے کا حکم دے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر تل بیکر نے عدالت کو بتایا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں واقعات کی تشریح کو ’مسخ‘ کر کے بیان کیا گیا ہے۔
غزہ میں محکمہ صحت کے مطابق اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائی میں 23 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
انونی مشیر تل بیکر نے کہا کہ ’اگر نسل کشی کی کارروائیاں ہوتیں تو وہ اسرائیل کے خلاف سامنے آتیں۔ حماس اسرائیل کے خلاف نسل کشی چاہتا ہے۔‘

عالمی عدالتی انصاف میں اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

1948 کا نسل کشی کا کنوینشن جو نازی ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے قتل عام کے تناظر میں نافذ کیا گیا تھا، میں نسل کشی کی تعریف کسی بھی ایسی کارروائی کے طور پر کی گئی ہے جو کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی گئی ہو۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنی جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد کیا تھا جس میں حکام کے مطابق 12 سو افراد مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے اور 240 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
قانونی مشیر تل بیکر نے عدالت کو مزید کہا کہ دونوں اسرائیلی اور فلسطینی شہریوں کی تکالیف حماس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
حماس نے اسرائیل کے اُن الزامات کی تردید کی ہے کہ اس کے عسکریت پسند شہریوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں جو غزہ میں زیادہ تر ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔

’نسل کشی‘

اسرائیل کے وکیل میلکولم شا نے عدالت کو بتایا کہ ’کوئی نسل کشی نہیں۔ جنوبی افریقہ ہمیں آدھی کہانی بتا رہا ہے۔‘
امکان ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں ممکنہ ہنگامی اقدامات کے بارے میں عدالت فیصلہ دے تاہم نسل کشی کے الزامات کے بارے میں فیصلہ نہیں دے گی کیونکہ اس قسم کے کیسز کی کارروائیوں پر سال لگتے ہیں۔

مظاہرین غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عالمی عدالتی انصاف کے فیصلے حتمی اور بغیر اپیل کے ہوتے ہیں لیکن عدالت کے پاس ان کے نافذ العمل ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔
دی ہیگ میں فلسطین کے حامی افراد نے پرچم اٹھا کر مارچ کیا اور پیس پیلس کے سامنے ایک بڑے سکرین پر عدالتی کارروائی دیکھی۔ جیسے ہی اسرائیل کے وفد نے عدالت میں بات شروع کی تو فلسطین کے حامیوں نے لگائے، ’جھوٹا‘ ’جھوٹا‘۔
نِین حجاوی جو حال ہی میں نیدرلینڈز آئی ہیں، سے پوچھا گیا کہ وہ اسرائیل کے ان دلائل کے بارے میں کیا سوچتی ہیں کہ غزہ میں کارروائی اپنے دفاع کا معاملہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 75 برس سے ایک قابض جو لوگوں پر ظلم کر رہا ہے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ اپنے دفاع کے لیے ہے؟
حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے حق میں اسرائیل کے حامی بھی جمع ہوئے تھے۔

شیئر: