Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان پر ایرانی حملہ 2019 کے انڈین حملے سے کم نہیں‘

اعزاز چوہدری نے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایران نے اتنا سنگین اقدام کیوں اٹھایا (فوٹو: اے ایف پی)
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کو ایران کی سرزمین اپنے خلاف استعمال ہونے کی شکایات رہی ہیں اور ایران بھی ایسی ہی شکایت کرتا ہے۔ یہ شکایات کوئی نئی بھی نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک نے آپس میں قریبی تعلقات رکھنے کی کوشش کی ہے اور تلخیوں کے باوجود ماضی میں کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ جیسے دو روز پہلے کے ایرانی اقدام سے پیدا ہوئی۔ 
منگل کی رات ایران کی طرف سے پاکستان کے اندر کیا جانے والا میزائل حملہ اس لیے بھی زیادہ حیران کن ہے کہ اس سے تھوڑی ہی دیر پہلے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبدللھیان نے پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ڈیوس میں ملاقات کی تھی اور ٹی وی سکرینوں پر نظر آیا کہ بظاہر دونوں خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ حملے کے وقت بھی دونوں ممالک کی افواج مشترکہ مشقوں میں شامل تھیں۔  
اگرچہ ایرانی وزیرخارجہ نے حملے کے بعد کہا کہ انہوں نے پاکستان میں پناہ گزین ایرانی شہریوں پر مشتمل جیش العدل گروپ کو نشانہ بنایا ہے، کیونکہ یہ گروہ کچھ دن پہلے ایران کی پولیس فورس پر ایک حملے میں ملوث تھا۔
لیکن ان کی بات میں وزن اس لیے نہیں ہے کیونکہ پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے ایران سے شکایت کرتا آیا ہے کہ اس کے صوبہ بلوچستان میں شدت پسندی میں ملوث عناصر بلوچستان کی سرزمین پر مقیم ہیں مگر پاکستان نے کبھی اس طرح کی کارروائی کا عندیہ تک نہیں دیا۔   
یہاں تک کہ پاکستان نے ایک انڈین حاضر سروس خفیہ آفیسر کلبھوشن یادیو کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ ایران سے پاکستان میں ایک جاسوس اور تخریب کاری کے مشن پر داخل ہو رہا تھا اور اس کی اور اس جیسے کئی دوسرے پاکستان مخالف عناصر کی سرگرمیوں، جو وہ ایران کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کر رہے تھے، کے ثبوت ایران کو فراہم کیے گئے، لیکن ایران نے اس کے خلاف کوئی موثر ایکشن نہیں کیا۔  
اس کے علاوہ بھی پاکستان میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کے کئی واقعات کے ڈانڈے ایرانی سرزمین پر ہی جا کر ملے مگر پاکستان نے کبھی بھی عوامی سطح پر کھل کر ایران پر الزام تراشی نہیں کی۔   
اس کے برعکس پاکستان نے ایران کی شکایات دور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اسی طرح کے ایک اور ایران مخالف شدت پسند گروہ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو بھی پکڑوانے میں ایران کی بھرپور مدد کی۔  

ضیغم خان نے کہا کہ ‘جیش العدل کے خلاف پاکستان نے کئی کارروائیاں کی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کی سرحد کے اندر سبز کوہ کے مقام پر ہونے والے ایران کے میزائل حملے کی ٹائمنگ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ اس وقت پاکستان اور ایران کے تعلقات غیر معمولی رفتار سے بہتری کی طرف گامزن تھے۔ اور حملے کے روز بھی پاکستان کا ایک اعلٰی سطحی تجارتی وفد ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں موجود تھا اور ایران کے ساتھ دیرپا معاہدوں پر دستخط کرنے کے عمل کا حصہ بن رہا تھا۔  
ایسے میں ایران کی طرف سے پاکستان پر کیا گیا یہ اشتعال انگیز حملہ بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے۔ اور ان سوالات کے جوابات پاکستان کے کئی سینیئر عہدیداروں کے لیے بھی تاحال مشکل ہیں۔  
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کے مطابق انہیں بھی یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایران نے اتنا سنگین اقدام کیوں اٹھایا اور انہیں اس پر حیرت ہے۔  
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان نے حملے کے بعد بھی تحمل کا مظاہرہ کیا اور پہلے اس معاملے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں مجبور ہو کر جوابی میزائل سٹرائیک کی۔ دونوں ملکوں کے مابین ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن افسوسناک ہے کہ ایران کی طرف سے حملہ ہوا۔‘  
پاکستان کے سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان کے خیال میں ’ایران کا حملہ پاکستان کے شمالی شہر بالاکوٹ میں 2019 میں انڈین حملے سے کم نہیں ہے۔‘   
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ایران نے ہماری حاکمیت اعلٰی کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس واقعے اور بالاکوٹ حملے میں ایک ہی فرق ہے کہ ایک طرف سے میزائل آئے تو ہم کہتے ہیں کہ دشمن نے حملہ کیا ہے، دوسری طرف سے آئے تو ہم کہتے ہیں برادر، برادر، برادر۔‘  

ایران کا پاکستان پر کیا گیا یہ اشتعال انگیز حملہ بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’بین الااقوامی تعلقات میں کوئی برادر نہیں ہوتا، بھائی چارے والے ایکشن ہوتے ہیں، کوئی دشمن نہیں ہوتا، دشمنوں جیسی کارروائی ہوتی ہے۔ برادر وہ ہے جو بھائیوں والے عمل کرے۔‘  
ضیغم خان نے کہا کہ ‘اسی جیش العدل کے خلاف پاکستان نے کئی کارروائیاں کی ہیں جبکہ بلوچ علٰحیدگی پسند تنظیم بی ایل اے ایران میں گھسی ہے اور ایران انہیں پناہ دیتا ہے اور اس کے بعد اس طرح کی کشیدگی بڑھانے والی کارروائی۔‘  
اس صورت حال میں یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ پاکستان میں ایران کے حملے سے پہلے پاکستانی عوام کا ایک طبقہ یہ سوچ رہا تھا کہ ایران ممکنہ طور پر فسلطین میں اسرائیلی جارحیت کا کسی نہ کسی طرح جواب دے گا، لیکن اب لوگوں کی اکثریت یہ سوچ رہی ہے کہ ایران کی زیادہ تر کارروائیاں اپنے پڑوسی اسلامی ممالک کے خلاف ہی ہیں۔  
ایران کے پاکستان پر حملے کے جو بھی مضمرات تھے اب یہ ایسا اقدام بن گیا ہے جو مستقبل میں خطے میں اور اسلامی دنیا میں ایران کے کردار کو ہمیشہ مشکوک بنائے رکھے گا۔ اور پاکستانی عوام میں اپنے مثبت تاثر کی بحالی کے لیے ایران کو بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ شاید جلد ممکن نہ ہوسکے کیونکہ ماہرین کے مطابق ایران کی جارحیت کا یہ عمل دور رس نتائج لیے ہوئے ہے اور اس کے اثرات آنے والے کئی سالوں تک خطے پر مرتب ہوتے رہیں گے۔ 

شیئر: