Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے لڑائی میں عارضی وقفے کی تجویز

ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام نے بتایا کہ ’حماس کے ساتھ ڈیل پر عمل درآمد میں دو ماہ لگ سکتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل نے حماس کو قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر دو ماہ تک لڑائی روکنے کی تجویز پیش کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے امریکی نیوز ویب سائٹ ’ایکسیوز‘ کی رپورٹ میں نامعلوم اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’یہ معاہدہ متعدد مراحل پر مشتمل ہوگا۔‘
 پہلے مرحلے میں خواتین، 60 برس سے زائد عمر کے مردوں اور تشویش ناک حالت میں مبتلا افراد کو رہا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے بعد اگلے مرحلے میں خواتین فوجیوں، کم عمر سویلین مردوں، مرد فوجیوں اور یرغمالی کے دوران مرنے والوں کی لاشوں کی واپسی ہوگی۔
حکام نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ’معاہدے کے تحت اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کی ’مخصوص تعداد‘ کو بھی رہا کیا جائے گا، لیکن تمام کو نہیں۔‘
اگرچہ اس تجویز میں جنگ ختم کرنے کے وعدے شامل نہیں، تاہم اس میں اسرائیلی فوجیوں کی غزہ کے بڑے شہروں میں موجودگی کو کم کرنے کی تجوہز موجود ہے۔
اس کے علاوہ رہائشیوں کو علاقے کے تباہ حال شمالی علاقے میں بتدریج واپس جانے کی اجازت دینا شامل ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’اس ڈیل پر عمل درآمد کرنے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
قطر، جو امریکہ اور مصر کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں لڑائی رُکوانے کے لیے مذاکرات میں سب سے آگے رہا ہے، نے منگل کو ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کی۔
مذاکرات کی تفصیل پر تبصرے سے انکار کرتے ہوئے قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کا کہنا ہے کہ میڈیا کو لیک کی گئی خبر ’یا تو توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہے یا مکمل طور پر غلط ہے۔‘
انہوں نے دوحہ میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’(تنازعے) سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات کا ہے اور فریقین کے درمیان پائیدار جنگ بندی ہو سکتی ہے۔‘

قطریِ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسرائیلل اور حماس کے درمیان ’نئی مجوزہ ڈیل‘ کی تصدیق نہیں کی (فائل فوٹو: قطری وزارتِ خارجہ)

اسرائیلی تجویز کی اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئیں جب امریکی میڈیا نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے رابطہ کار بریٹ میک گرک مصر اور قطر میں ملاقاتوں کے لیے خطے میں موجود ہیں۔
بریٹ میک گرک کی خطے میں موجودگی کا مقصد یرغمالیوں کے تبادلے کے ایک نئے معاہدے کو حتمی شکل دینا ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر کے خُون ریز حملوں کے دوران تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا، اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ ’غزہ میں ابھی بھی 132 کے قریب یرغمالی موجود ہیں۔‘
اے ایف پی نے اسرائیلی اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا کہ ’ان میں سے کم از کم 28 یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں۔‘
اسرائیلی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’7 اکتوبر کو ہونے والے حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 140 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔‘
حماس کے زیرِانتظام غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ’جواب میں اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں کم سے کم 25 ہزار 490 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔

شیئر: