Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا جلسہ: ’پہلی سیاسی تحریک جس کی قیادت خواتین کر رہی ہیں‘

ماضی کے برعکس جلسے میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھیں۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سنیچر کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام جلسے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس جلسے کو تجزیہ کاروں نے اپنی نوعیت کا منفرد اور شہر کی تاریخ کے بڑے اجتماعات میں سے ایک قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس جلسے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی قیادت میں دو ماہ قبل بلوچستان کے شہر تربت میں ایک زیرِ حراست نوجوان کے قتل کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج اور دھرنا اب ایک باقاعدہ بلوچ سیاسی تحریک بن گئی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بلوچستان کی تاریخ میں ایسی پہلی سیاسی تحریک بن گئی ہے جس کی قیادت خواتین کر رہی ہیں اور مرد ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ نے صوبے میں اپنی سرگرمیوں کو مزید نچلی سطح تک پھیلانے اور بلوچستان کے باقی شہروں میں بھی اس تحریک کے اجتماعات کا عندیہ دے دیا ہے۔
جلسے کے لیے کوئٹہ کے بلوچ اکثریتی علاقے سریاب میں واقع شاہوانی فٹبال سٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا تھا جو نہ صرف شرکا سے مکمل طور پر بھر گیا تھا بلکہ اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سٹیڈیم کے باہر بھی لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ جلسے میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی جھنڈا نہیں تھا تاہم بعض شرکا نے ماہ رنگ بلوچ کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
اس جلسے کا اعلان ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے صرف چار روز قبل اسلام آباد میں ایک ماہ سے زائد جاری رہنے والے دھرنے کے اختتام پر کیا تھا۔
جلسے کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی و تجزیہ کار رشید بلوچ نے بتایا کہ ’صرف چار دنوں کے مختصر وقت میں اتنا بڑا جلسہ کئی سیاسی جماعتیں مل کر بھی نہیں کر سکتیں لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی نے یہ کر دکھایا۔ اس کے بلوچستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔‘
ان کے بقول یہ جلسہ نہ صرف کوئٹہ کے سب سے بڑے اجتماعات میں سے ایک تھا بلکہ کئی حوالوں سے منفرد بھی تھا۔ ماضی کی مثالوں کے برعکس جلسے میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھیں اور اس کی قیادت بھی خواتین کر رہی تھیں۔ زیادہ تر مقررین بھی خواتین ہی تھیں۔ اسی طرح جلسے کے شرکا کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔
جلسے میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک تھی جو سٹیج اور نیچے جلسے گاہ میں اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھے۔ لاپتہ افراد کے کوائف کے اندراج کے لیے جلسہ گاہ میں رجسٹریشن سینٹر بھی بنایا گیا تھا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بھی جلسے میں تھے۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

دیگر جلسوں کے برعکس سکیورٹی پر کوئی پولیس یا ایف سی اہلکار تعینات نہیں تھے۔ جلسے کے منتظمین میں شامل نوجوان رضا کار اپنی مدد آپ کے تحت تلاشی لے کر لوگوں کو جلسہ گاہ میں اندر جانے دے رہے تھے۔
جلسے سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے علاوہ سمی دین بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر منظور احمد بلوچ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
مرکزی خطاب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کیا جنہوں نے طویل تقریر میں جذباتی انداز بھی اپنایا، براہوی بلوچی، اردو اور انگریزی میں بات کی۔
بلوچستان حکومت نے جلسے سے قبل سکیورٹی خطرات کو بنیاد بنا کر دفعہ 144 نافذ کرکے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگائی تھی تاہم اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ نکلے اور جلسے میں شریک ہوئے۔
 ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کا جلسہ روکنے کے لیے خوفزدہ حکومت نے دفعہ 144 لگایا مگر لوگ خوف توڑ کر باہر نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دفعہ 144 آج سے نہیں 1948 سے نافذ ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنی تقریر میں حکومت اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ قوم پرست صرف بلوچستان کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ لاپتہ افراد، بلوچستان کے مسائل اور ساحل و وسائل پر بات کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن رات کو حکمرانوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی ہی قوم کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی روایتی جلسہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو نہ صرف بلوچستان بھر بلکہ جہاں جہاں بلوچ آباد ہیں ان سب کی آواز ہے۔ یہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں، آپریشنز اور بلوچوں کو مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والوں کے خلاف تحریک ہے۔ یہ مزدوروں، ماہی گیروں، چرواہوں سمیت سب کی تحریک ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کی بازیابی، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی روک تھام، سی ٹی ڈی کو تحلیل کرنے، ڈیٹھ سکواڈ کے خاتمہ ان کے چھ نکاتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔‘

ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد دھرنے کی بھی قیادت کی تھی۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’جو کہتے تھے کہ یہ چند لوگوں کا دھرنا ہے آج دیکھو کتنے بلوچ ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ جلسہ ان لوگوں کے لیے پیغام ہے جو بلوچوں میں تفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں- آج کے جلسے نے ثابت کر دیا کہ بلوچ متحد ہیں اور کسی سے ڈرنے اور طاقت کے زور پر جھکنے والے نہیں۔ ان کے پاس صرف ہتھیار ہے اور ہمارے پاس صرف حوصلہ ہے۔ ہم یہ جنگ حوصلے سے جیتیں گے۔‘
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’یہ تحریک بلوچستان کی بقا اور قومی شناخت کی تحریک ہے اسے ہر بلوچ کو توانا کرنا ہو گا۔‘
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ہم جب اسلام آباد کے لیے نکلے تھے تب ہی ہمیں پتہ تھا کہ اسلام آباد میں بلوچوں کے لیے انصاف نہیں۔ لیکن ہم نے جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا چہرہ عیاں کرنا چاہتے تھے۔ اس جمہوریت میں آئین کو ٹشو پیپر کی حیثیت نہیں دی جاتی۔ عدلیہ با اختیار ہوتی تو بالاچ کی لاش نہیں پھینکی جاتی۔‘
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں عورتوں کے حقوق کا بھی خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی سیاست کرنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے بلوچوں کو مخاطب کرتے ہوئے زور دیا کہ ’اپنے عورتوں کو بنیادی حقوق دو، ان کی پڑھائی پر قدغن نہ لگاؤ اور دنیا کو پیغام دیں کہ تہذیب یافتہ قوموں کی طرح ہمارے ہاں عورت اور مرد برابر ہیں۔‘

لاپتہ افراد کے رشتہ دار جلسے میں شریک تھے۔ (فوٹو: بلوچ یکجہتی کمیٹی)

تجزیہ کار اور مصنف عابد میر کا کہنا ہے ایسا لگتا ہے کہ لوگ طویل عرصے سے اس موقع کے انتظار میں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تحریک بلوچوں کے مجموعی مزاج کے ہم آہنگ بھی ہیں۔ بلوچوں کو ہمیشہ سے وہ رہنما پسند ہیں جو مزاحمت کی بات کرتا ہو، شاعر بھی وہی اچھا لگتا ہے جو مزاحمتی شاعری کرتا ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ 2020 میں چار سالہ بچی برمش کے سامنے ان کی والدہ اور پھر طالب علم حیات بلوچ کا والدہ کے سامنے سکیورٹی اہلکار کے ہاتھوں قتل کے واقعات کے بعد احتجاجی تحریک شروع ہوئی مگر اس وقت تنظیم سازی اور قیادت کی کمی تھی۔ اس بار پہلے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی موجود تھی اور انہیں ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی صورت میں قیادت بھی ملی تو یہ ایک منظم تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔
عابد میر کا کہنا تھا کہ ’یہ جدید بلوچ تاریخ میں پہلی ایسی سیاسی تحریک ہے جس کی قیادت عورتیں کر رہی ہیں اور اس میں مردوں کی بڑی تعداد ان کے پیچھے چل رہی ہیں۔‘

شیئر: