Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آنے والی سرکار ہنی مون پیریڈ سے محروم، اجمل جامی کا کالم

2018 اور 2013 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ بالترتیب 51 اور 53 فیصد رہا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
8 فروری کو ہونے والا چناؤ اب محض چند روز کی دوری پر ہے، نتائج کیا ہوں گے؟  شہر اقتدار میں اس بابت بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں، ایک بولی البتہ کامن ہے اور وہ  ہے کہ صاحب مقبولیت اپنی جگہ لیکن نازک دور سے گزرتا ملک اس بات کا متقاضی ہے کہ قبولیت کو اہمیت دی جائے۔ ٹرن آؤٹ البتہ توقعات سے زیادہ ہوا تو گڑ بڑ ہونے کا شدید خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ  2018  اور 2013 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ بالترتیب 51 اور 53 فیصد رہا تھا۔ 2008 میں 44 اور 2002 میں محض 41 فیصد رہا۔ 1997 میں جب میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت ملی تو ٹرن آؤٹ اس قدر اکثریت کے باوجود فقط 36 فیصد رہا تھا۔ کچھ دانشور اب کے بار بھی سادہ اکثریت کی صورت میں ٹرن آوٹ کچھ ایسا ہی دیکھ رہے ہیں۔  
ایک اور اہم خدشہ امن و امان کی صورتحال ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص آئے دن دہشت گردی کے واقعات انتہائی تشویش ناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کا چند روز پہلے ہوا اجلاس بھی اسی فکر میں تھا۔
شرکا نے متفقہ طور پر بروقت انتخابات کے انعقاد کا عزم تو کیا لیکن خاکسار کی جانکاری ہے کہ اسی اجلاس میں وزیراعظم کے ماتحت ایک اہم ادارے نے امن و امان کی صورتحال پر سرخ لائن کھینچتے ہوئے کچھ عجب مشورہ دیا، جس کی تائید ایک انتہائی اہم نگراں وزیر نے بھی کی، تاہم افواج پاکستان کی نمائندگی کرنے والے افراد، الیکشن کمیشن کے ذمہ داران اور دیگر وزرا نے البتہ اس خدشے کے باوجود بروقت انعقاد پر زور دیا اور یوں ہمیں الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک متفقہ بیان سننے کو ملا کہ چناؤ وقت پر ہوگا۔
اس وقت ملک بھر میں 27 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز حساس اور تقریباً 20 ہزار کے قریب پولنگ سٹیشنز انتہائی حساس قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے اکثریتی پولنگ سٹیشنز کا تعلق خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ہے۔  
اس سب کے باوجود پرامن انتخابات ہونے کی صورت میں سرکار کا قیام اور پھر اپوزیشن  کی ذمہ داری، اہم ترین سوال ہیں۔ سرکار کس کی ہوگی، ہم اپنی تحاریر میں گاہے گاہے ایک نقشہ پیش کرتے آئے ہیں جس کا تعلق براہ راست ٹرن آؤٹ سے ہوگا۔
سادہ اکثریت ملنے کی صورت میں اطلاع ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم ہوسکتے ہیں اور اگر صورتحال پی ڈی ایم سرکار کو دستیاب مینڈیٹ والی ہوئی تو پھر شہباز شریف وفاق میں براجمان ہوتے دکھائی دیں گے۔ یہاں پنجاب میں میاں صاحب اپنی دختر مریم بی بی کی بھر پور مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اب جلسوں میں انہیں عملی طور پر اپنی سیاسی جانشین قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ آزاد امیدواروں پر البتہ جہانگیر ترین کا جیٹ اور زرداری صاحب کا ریڈار انتہائی ایکٹو دکھائی دیتا ہے۔  
اصل مسئلہ خیبرپختونخوا کا ہے، پرویز خٹک ان دنوں خود کو وزیراعلیٰ کا مناسب ترین اور مضبوط ترین امیدوار تصور کیے بیٹھے ہیں، لیکن کیسے؟ اس کا جواب وہ تاحال دینے سے قاصر ہیں۔ یہاں تحریک انصاف کے آزاد امیدوار تمام امیدواروں کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ایک خیال ہے کہ آزاد امیدواروں کی جیت کی صورت میں انہیں دائیں بائیں من پسند کی سیاسی جماعتوں میں دھکیلنے کی کوشش ہوگی۔  

پیپلز پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو بلاول قائد حزب اختلاف ہوں گے (فوٹو: اے ایف پی)

سرفراز بگٹی کی بروقت پیپلز پارٹی میں شمولیت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بلوچستان شاید ن لیگ کے ہاتھ میں نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اکثریت ن لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی کی ہوچکی۔ میاں صاحب مالک بلوچ جیسے نیشنلسٹ رہنما کی صورت میں وزیر اعلیٰ چاہتے تھے جب کہ پیپلزپارٹی یہاں بلوچستان میں جو رنگ پیا چاہے کے اصول پر کاربند رہی اور شاید اسی وجہ سے فی الحال تک لیڈ میں ہے۔
بگٹی صاحب کی شمولیت بھی اسی کی ایک دلیل ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں زرداری صاحب توانا مینڈیٹ لے گئے تو یاد رہے کہ پھر وہ سرکار میں بیٹھنے کے بجائے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار نبھائیں گے۔ جی ہاں! بلاول بھٹو زرداری کے قائد حزب اختلاف ہونے کی ٹھوس وجوہات اور اطلاعات ہیں۔  
ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں میں مصروف تو ضرور ہیں لیکن اند ر کھاتے دونوں کے درمیان ایک خاموش مفاہمت پائی جاتی ہے۔ یہ مفاہمت یا اتفاق رائے بالخصوص اپوزیشن کے کردار بارے ہے۔ یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ کسی تیسری قوت کے بجائے اپوزیشن کا کردار بھی انہی کو نبھانا ہے۔ تحریک انصاف یا کسی اور قوت کو یہ گنجائش دینا سیاسی خود کشی ہوگی کیونکہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کے دونوں کردار (یعنی ان کی سرکار اور ان کی اپوزیشن) بھگت چکیں۔  
پیپلز پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو بلاول قائد حزب اختلاف ہوں گے، اس خیال کی ایک اور دلیل بھی جیالے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ دلیل بلاول کو اگلے چناؤ میں وزیراعظم بنوانے سے جڑی ہے۔ زرداری صاحب اور پی پی پی کی سینیئر قیادت سمجھتی ہے کہ اس بار بلاول اپوزیشن لیڈر کے طور پر جب اپنے جوہر دکھائیں گے تو اگلے انتخابات میں وہ بلاشبہ وزیراعظم کا قد کاٹھ اختیار کر چکے ہوں گے۔  
خیال، رائے یا معلومات اپنی جگہ لیکن اس خاکسار کو سب سے بڑی تشویش چناؤ کے بعد کی صورتحال پر ہے، کیا سیاسی اور سماجی تقسیم کسی میثاق کی صورت میں بہتری کی جانب گامزن ہوگی؟ انتہائی تشویش ناک اقتصادی صورتحال کیا سال دو سال میں مثبت اعشاریے  پیش کرے گی؟
یاد رہے کہ اسی اقتصادی ریڈ الرٹ کی وجہ سے شہر اقتدار میں کہا جارہا ہے کہ اب آنے والی سرکار ہنی مون پیریڈ کی سہولت سے محروم ہوگی، انہیں آتے ہی انتہائی سخت اور اہم فیصلے لینا ہوں گے۔ کیا اس سب کے بعد ہمارا نوجوان شانت ہو پائے گا؟ کیا غم و غصے کا شکار سوشل میڈیا صارف کوئی نیا بیانیہ قبول کر پائے گا؟  

سادہ اکثریت ملنے کی صورت میں اطلا ع ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم ہوسکتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

فیض یاد آئے۔۔۔
نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام  
کوئی بھی حیلہ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے  
امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ  
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے

شیئر: