Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 24 ہلاک

صوبہ بلوچستان میں حکام کے مطابق ضلع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابات سے ایک روز قبل انتخابی دفاتر کے قریب بم دھماکوں میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق بدھ کو ضلع پشین میں ہونے والا دھماکہ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 47 سے آزاد امیدوار اسفند یار کاکڑ کے انتخابی دفتر میں ہوا جو کوئٹہ سے متصل علاقے خانوزئی میں این 50 شاہراہ پر واقع ہے۔
خانوزئی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر حبیب الرحمان نے اُردو نیوز کو تصدیق کی کہ ’ہسپتال میں 14 افراد کی  لاشیں لائی گئی ہیں جن میں ایک دس سے بارہ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ 30 زخمیوں کو بھی ہسپتال لایا گیا ہے جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد مزید علاج کے لیے کوئٹہ روانہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر حبیب الرحمان نے بتایا کہ زخمیوں میں سے چھ  افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
خانوزئی کوئٹہ سے شمال کی جانب تقریباً 70 کلومیٹر دور ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر خانوزئی دھیرج کالرا کا کہنا ہے کہ دھماکہ موٹر سائیکل میں نصب بم کے ذریعے کیا گیا۔
علاقے سے انتخاب لڑنے والے جماعت اسلامی کے عہدیدار صابر خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ دھماکہ جنکشن چوک پر ہوا جہاں عموماً رش رہتا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ دھماکے کے وقت آزاد امیدواراسفند یار کے پولنگ ایجنٹس کی میٹنگ ہو رہی تھی۔‘
ادھر پشین سے متصل قلعہ سیف اللہ میں بھی جنکنشن چوک کے قریب بم دھماکا ہوا ہے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں جمعیت علما اسلام کے انتخابی دفتر کو نشانہ بنایا گیا ہے- یہ دھماکہ جے یو آئی کے امیدوار مولانا واسع کی انتخابی دفتر کے قریب ہوا۔ 
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے سما ٹی وی سے بات کرتے ہوئے قلعہ سیف اللہ دھماکے میں 10 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے اور بتایا کہ متعدد افراد زخمی ہوئے- 
ایک عینی شاہد نظام الدین نےاردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ دھماکا بہت شدید تھا اور کئی لوگوں کے جسم کے چیتھڑے اڑگئے ۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی اعضاء نظرآرہے ہیں۔ کئی لوگ موقع پر ہی جان دے بیٹھے ہیں۔
خیال رہے کہ اسفند یار کاکڑ  پشین سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 سے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
وہ پشین کی چار میں سے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 47 پر بھی جمعیت علماء اسلام کے امیدوار سابق ایم این اے مولوی کمال الدین کے مدّمقابل ہیں۔
یہ حلقہ برشور کے علاوہ خانوزئی اور تحصیل کاریزات پر مشتمل ہے۔ اس نشست پر اسفند یار کاکڑ کو 2018 اور2013 کے انتخابات میں جے یو آئی کے عبدالواحد صدیقی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی تاہم 2008 میں وہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور صوبائی وزیر بنے تھے۔
اسفند یار کاکڑ کا تعلق برشور کے معروف سیاسی رہنماء سرور خان کاکڑ کے خاندان سے ہے جو بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹر رہ چکے ہیں۔
اس سے قبل 30 جنوری کو سبی میں پی ٹی آئی کی ریلی کے دوران بھی اسی طرز کا موٹر سائیکل بم دھماکہ ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی کے چار کارکن ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
بلوچستان میں گزشتہ ایک ماہ میں انتخابی مہم کے دوران 50 سے زائد حملے ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر کم شدت کے تھے۔ زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں نے قبول کی ہے۔
بلوچستان میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انتظامیہ نے کوئٹہ، پشین سمیت صوبے کے بیشتر اضلاع میں امیدواروں کو انتخابی مہم محدود کرنے کی ہدایت کی تھی۔
حکام کے مطابق بلوچستان میں انتخابات کے دوران 65 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں جن میں پاک فوج کے 19 اہلکار بھی شامل ہیں۔

شیئر: