Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست سے قبل تنازعات کا شکار، مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ نامزد

وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بن جائیں گی(فائل فوٹو: مریم نواز، فیس بک پیج) 
پاکستان مسلم لیگ ن نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کو پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے۔
وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بن جائیں گی۔
مریم نواز آٹھ فروری کے انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا اور لاہور کے پی پی 159 سے ایم پی اے جبکہ این اے 119 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔
50 سالہ مریم نواز 28 اکتوبر 1973 کو نواز شریف اور کلثوم نواز کے ہاں لاہور میں پیدا ہوئیں۔
ان کے بہن بھائیوں میں دو بھائی حسن نواز اور حسین نواز جب کہ ایک بہن اسما نواز ہیں۔ 
مریم نواز نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ اس سے قبل انہوں نے کنگ ایڈورڈ کالج میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا تھا لیکن ان کے داخلے کے خلاف میرٹ ہونے کی وجہ سے ایک تنازع اٹھا جس کے بعد انہوں نے ڈاکٹری کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 
سنہ 1992 میں مریم نواز کی شادی ان کے والد جو کہ وزیراعظم تھے، ان کے ملٹری سیکرٹری کیپٹن صفدر اعوان سے ہوئی۔ مریم نواز کے تین بچے ہیں جن میں ایک بیٹا جنید صفدر اور دو بیٹیاں ہیں۔
مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کی شادی نواز شریف کے قریبی ساتھی سیف الرحمان کی بیٹی سے ہوئی لیکن کچھ عرصہ قبل ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہو چکی ہے۔ مریم نواز کی ایک بیٹی معروف صنعت کار میاں منیر کی بہو ہیں۔ 
مریم نواز کا ایک نواسہ اور نواسی بھی ہیں۔ 
سنہ 2013 تک مریم نواز ایک غیرسیاسی خاتون تھیں۔ 2013 کے انتخابات میں مریم نواز کو ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا نگران بنایا گیا جہاں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی اور پارٹی کو منظم کرنے میں کردار ادا کیا۔
یہی وہ وقت تھا جب مریم نواز سوشل میڈیا پر متحرک ہوئیں۔ جہاں انہوں نے سوشل میڈیا پر پہلے سے انتہائی متحرک تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینا شروع کیا۔ 
2013 کے انتخابات کے بعد جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو مریم نواز کو وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا لیکن ان کی تقرری کو چیلنج کر دیا گیا جس کے بعد انہوں نے وہ عہدہ چھوڑ دیا تاہم وزیراعظم ہاؤس میں رہتے ہوئے مریم نواز نے سوشل میڈیا پر اپنی جماعت کو متحرک رکھا اور تحریک انصاف کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی۔ 

سنہ 2013 کے انتخابات میں مریم نواز کو ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا نگران بنایا گیا (فائل فوٹو: مریم نواز، فیس بک پیج)

کہا جاتا ہے کہ 2013 کے بعد جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو ان کی میڈیا کوریج کے لیے جاری کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز کی منظوری مریم نواز دیتی تھیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف وزیراعظم ہاؤس آمد کی پہلی فٹیج جس میں وہ وزیراعظم کو سلیوٹ کر رہے تھے، وہ بھی جاری کروانے میں مریم نواز کا کردار بتایا جاتا ہے جس پر مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر کافی تنقید بھی ہوئی۔ 
جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی سے قبل جنرل راحیل شریف کے دور میں ڈان لیکس کا سکینڈل بھی سامنے آیا۔ اس سکینڈل میں مریم نواز پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی معلومات افشا کرنے کا الزام لگایا گیا تاہم تحقیقات کے بعد مریم نواز کو بری الذمہ قرار دیا گیا۔ 
2016۔17 میں پاناما سکینڈل سامنے آیا تو اس میں بھی مریم نواز کا نام موجود تھا۔ سپریم کورٹ نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تو پہلی بار مریم نواز میڈیا کے سامنے آئیں اور انہوں نے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کی۔ پہلی گفتگو میں مریم نواز کا ’روک سکو تو روک لو‘ کا معروف زمانہ جملہ وائرل تھا۔ 
نواز شریف نااہل ہوئے تو لاہور کے حلقہ این اے 20 میں ایک بار پھر انتخاب کا بگل بجا۔ مسلم لیگ ن نے کلثوم نواز کو امیدوار نامزد کیا جو اپنی بیماری کے باعث لندن میں مقیم تھیں۔

2013 کے انتخابات کے بعد مریم نواز کو وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا (فائل فوٹو: مریم نواز، فیس بک پیج)

مریم نواز نے ریاستی اداروں کی تمام تر مخالفت کے باوجود نہ صرف یہ مہم چلائی بلکہ ایک مضبوط امیدوار یاسمین راشد کے مقابلے میں یہ انتخاب بھی جیتا۔ 
پاناما سکینڈل کے نتیجے میں نیب عدالت میں چلنے والے ایون فیلڈ ریفرنس میں 2018 میں مریم نواز اور نواز شریف کو سزا سنا دی۔ جس وقت یہ سزا سنائی گئی تھی اس وقت مریم نواز اور نواز شریف دونوں لندن میں کلثوم نواز کی تیمارداری کے لیے موجود تھے۔
تاہم کچھ ہی دنوں بعد مریم نواز اور نواز شریف دونوں لندن سے گرفتاری دینے کے لیے پاکستان آئے اور دونوں اڈیالہ جیل پہنچ گئے۔ اڈیالہ جیل میں قید کے دوران ہی کلثوم نواز کی وفات کی اطلاع آئی۔ مریم نواز اور نواز شریف دونوں پیرول پر رہا ہو کر کلثوم نواز کی آخری رسومات میں شریک ہوئے اور بعد ازاں پھر جیل واپس آگئے۔ 
ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست ضمانت منظور ہوئی تو کچھ ہی عرصے بعد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنا دی گئی۔
اب کی بار نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں تھے جہاں مریم نواز اکثر ان سے ملاقات کے لیے آتی تھیں۔ نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف کے سامنے گرفتار کر لیا تھا۔ بعدازاں عدالت نے ان کی درخواست ضمانت منظور کی۔ 

سنہ 2018 میں مریم نواز اور نواز شریف دونوں لندن سے گرفتاری دینے کے لیے پاکستان آئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کچھ ہی عرصہ قبل اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انہیں اور کیپٹن صفدر کو بری کر دیا تھا۔ جس کے بعد مریم نواز انتخابی سیاست کے لیے اہل ہو گئیں۔ 
مریم نواز نے کئی ضمنی انتخابات، کشمیر اور گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کی۔ 
ایک ایسے وقت میں جب پارٹی شدید مشکلات کا شکار تھی، نواز شریف جیل میں تھے یا انہیں اقتدار سے نکال دیا گیا تھا اور کئی ایک سیاسی رہنما نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے سے کترا رہے تھے، مریم نواز نے میدان سیاست میں اپنے والد کا ہاتھ تھاما اور بہادری کے ساتھ کھڑی رہیں۔ 
مختصر عرصے کے دوران انہوں نے پارٹی کے اندر اتنا مقام بنا لیا کہ نواز شریف کے بعد انہیں بڑا کراؤڈ پُلر لیڈر سمجھا جانے لگا۔
نواز شریف نے انہیں اپنے بعد جلسوں میں خطاب کا موقع دیا جو کہ عموماً روایت کے برعکس تھا۔ 
پارٹی میں مریم نواز کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں اور اثر و رسوخ کے باعث پہلے نواز شریف کے سب سے قریبی ساتھی چوہدری نثار علی خان پارٹی سے الگ ہوئے اور بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ نواز شریف کے بچوں کے تحت سیاست نہیں کر سکتے۔

نواز شریف نے انہیں اپنے بعد جلسوں میں خطاب کا موقع دیا جو کہ عموماً روایت کے برعکس تھا (فائل فوٹو: مریم نواز، فیس بک پیج)

سنہ 2022 میں جب مریم نواز کو پارٹی کا سینیئر نائب صدر بنایا گیا تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی سے نالاں رہنے لگے اور رفتہ رفتہ مسلم لیگ نون سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے۔ 
ابتدا میں انہوں نے مریم نواز کو سپیس دینے کی بات کی لیکن بعد ازاں اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا اور کہا کہ وہ بچوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔ 
گزشتہ کچھ برسوں سے یہ کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنانا چاہتے ہیں اور اگر مسلم لیگ نون اقتدار میں آئی تو اگلی وزیراعظم مریم نواز ہوں گی۔
نواز شریف کے اپنے انتخابات لڑنے کے بعد مریم نواز کے وزیراعظم بننے کے حوالے سے چہ میگوئیاں کم ہوتی گئیں کیونکہ پارٹی کا بیانیہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا تھا۔ 
تاہم کچھ عرصہ قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ شریف خاندان نے اپنے طور پر یہ طے کیا ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے جبکہ مریم نواز کو پہلی سیاسی ذمہ داری بطور وزیراعلیٰ پنجاب دی جائے گی جس کی حتمی منظوری منگل کو نواز شریف نے دی اور دونوں کو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا۔

شیئر: