Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا تحریکِ انصاف کے ’آزاد‘ ارکان ’کارنر‘ ہوں گے؟

مسلم لیگ نواز نے وزارت عظمیٰ کے لیے شہباز شریف کو نامزد کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ منگل کو اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جس سے سیاسی کینوس پر حکومت سازی کا خاکہ واضح ہوگیا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمیت پاکستان کی چھ جماعتوں کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کی رہائش پر منگل کو ہونے والے اجلاس کے بعد مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مل کر حکومت بنائیں گے۔ مفاہمت کا عمل جاری رہے گا جس میں پاکستان تحریک انصاف کو شامل ہونا چاہیے۔
مسلم لیگ ن نے شہباز شریف کو وزیراعظم اور مریم نواز کو وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کیا ہے۔ حکومت سازی اور رولز آف گیمز طے کرنے کے لیے کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔
آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں سے مفاہمت کی بات کی ہے جبکہ تحریک انصاف کے بانی منگل کو جیل میں کیس کی سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت سے بات چیت نہیں کرے گی۔ انتخابات کے نتائج کو چیلنج کیا جائے گا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں بظاہر آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان ’کارنر‘ ہوتے نظر آرہے ہیں۔
یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے پی ڈی ایم ٹو حکومت کی طرح ’فرینڈلی‘ اپوزیشن بھی سامنے لائی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان جن کی تعداد اس وقت 92 ہے ان میں سے کچھ اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کر سکتے ہیں جبکہ دیگر ’آزاد‘ ارکان میں سے راجہ ریاض گروپ کی طرح علیحدہ گروپ بنوایا جائے گا جو ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا کردار ادا کرے  تاکہ اہم قانون سازی اور اہم عہدوں کی تعیناتی میں کوئی مشکل پیش نہ آ سکے۔
تحریک انصاف کو بھی ان خطرات کا ادارک ہے۔ اسی لیے اسمبلیوں میں مجلس وحدت المسلمین سے الحاق کیا جا رہا ہے تاکہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے ساتھ اپنے آزاد ارکان کو بھی پارٹی چھتری کے نیچے لایا جا سکے۔ کیا یہ حکمت عملی کامیاب ہوسکے گی؟ آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔

آصف علی زردای نے چوہدری شجاعت کے گھر میں شہباز شریف، خالد مقبول مقبول صدیقی، علیم خان، صادق سنجرانی کے ساتھ پریس کانفرنس کی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اس سے قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ ’حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دیں گے، لیکن کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا ’مسلم لیگ ن نے ہمیں حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں وفاقی حکومت میں شامل ہو سکیں۔‘
تاہم اسی دن رات کو  پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زردای نے اسلام آباد میں چوہدری شجاعت کے گھر میں شہباز شریف، خالد مقبول مقبول صدیقی، آئی پی پی کے صدر علیم خان، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’آج طے کیا ہے کہ مل بیٹھ کے حکومت بنائیں گے، پاکستان کو مل کر ہر مشکل سے نکالیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے مل بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مفاہمت بھی کرنی ہے اور اس میں پی ٹی آئی شامل ہے۔ ہر سیاسی جماعت مصالحت میں شامل ہونی چاہیے۔ ہر چیز کو مدنظر رکھتے ہوٸے فیصلہ کیا ہے کہ مل کر بیٹھیں۔ ہماری مساٸل پر مخالفت ہے نظریاتی مخالفت نہیں۔‘
اس کے فوری بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بتایا کہ پارٹی کے قائد محمد نوازشریف نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے محمد شہباز شریف جبکہ پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے مریم نوازشریف کو نامزد کیا ہے۔

یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے پی ڈی ایم ٹو حکومت کی طرح ’فرینڈلی‘ اپوزیشن بھی سامنے لائی جائے گی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

معروف صحافی اور اینکر پرسن سلیم صافی کا جیو ٹی وی کے پروگرام میں کہنا تھا کہ مشترکہ حکومت سازی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مجبوری ہے۔ اگر معاملات طے نہ پاتے تو بات ری الیکشن اور سیاسی ڈیڈ لاک کی طرف جا سکتی تھی۔
معروف تجزیہ نگار مظہر عباس نے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا سابق وزیراعظم نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جو گزشتہ ہفتے تک وزارت عظمیٰ کے مضبوط دعویداروں میں سے تھے، اب پچھلی نشست سنبھال چکے ہیں۔  شہباز شریف وزارت عظمی کے لیے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار ہیں اور آصف علی زرداری آئندہ  صدر کےلیے۔

’ملک کے لیے ضروری ہے آصف زرداری صدر بنیں‘

بلاول بھٹو زرداری سے پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی کوئی آئینی عہدہ بھی نہیں لے گی تو ان کا کہنا تھا ’یہ فیصلہ تو جماعت کرے گی لیکن وہ چاہتے ہیں آصف علی زرداری ملک کے صدر کا عہدہ سنبھالیں۔ میری خواہش ہے کہ آصف زرداری ملک کے صدر بنیں۔ ملک میں آگ ہے، پاکستان جل رہا ہے اور کوئی اس آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ آصف زرداری ہیں۔ ملک کے لیے ضروری ہے آصف زرداری صدر بنیں اور ملک کو بحران سے نکالیں۔‘

شہباز شریف نے کہا ’صدرِ پاکستان کا فیصلہ اتحادیوں نے کرنا ہے اور ہم سب مل کر مشاورت سے یہ طے کریں گے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا صدر کون ہوگا تو انہوں نے کہا ’صدرِ پاکستان کا فیصلہ اتحادیوں نے کرنا ہے اور ہم سب مل کر مشاورت سے یہ طے کریں گے۔‘
شہباز شریف نے کہا ’ہماری جنگ معیشت کے ساتھ ہے، اسے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ الیکشن میں ہم ایک دوسرے کے خلاف بات کرتے ہیں وہ مرحلہ ختم ہو چکا۔ اب ہماری جنگ ملک کے چیلنجز کے خلاف ہے۔ ہم نے اپنے اختلافات ختم کرکے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔‘
 شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ’پی ٹی آئی سپانسرڈ آزاد امیدوار حکومت بنا سکتے ہیں تو شوق سے بنائیں، ہم اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔‘

فہیم الحامد اردو نیوز، انڈپینڈنٹ اردو اور ملیالم نیوز کے جنرل سپروائزر ہیں۔

شیئر: