Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن میں استحکام پاکستان پارٹی سیاسی طاقت کیوں نہ دکھا سکی؟

آئی پی پی میں جہانگیر ترین، عون چوہدری اور علیم خان شامل ہوئے تھے۔ (فوٹو: فیس بک)
9 مئی واقعات کے بعد جون کے مہینے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین پر مشتمل ایک نئی جماعت استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) سامنے آئی تھی جس کی مرکزی قیادت جہانگیر ترین اور علیم خان کر رہے تھے۔
اس نوزائیدہ سیاسی جماعت میں پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والے اکثر نمایاں کردار شامل ہوگئے تھے۔ فردوس عاشق اعوان، نعمان لنگڑیال، ہاشم ڈوگر، فیاض الحسن چوہان، عامر محمود کیانی، محمود مولوی، عون چوہدری، مراد راس اور ایسے کئی دیگر بڑے نام تھے جو آئی پی پی میں شامل ہو گئے تھے۔
ان کے علاوہ لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں پارٹی کی بنیاد رکھتے وقت فواد چوہدری، عمران اسماعیل، علی زیدی وغیرہ نے بھی خاموش حاضری دی تھی تاہم یہ کردار اب منظر نامے سے غائب ہیں جبکہ کئی کردار مختلف مواقع پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے مثبت رائے رکھتے ہوئے پائے گئے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں استحکام پاکستان پارٹی نے بھی حصہ لیا۔ اس حوالے سے پارٹی نے عام انتخابات 2024 میں بھرپور انداز میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی کئی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔ استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرست کے مطابق پارٹی نے قومی اسمبلی اور پنجاب سے صوبائی اسمبلی کے لیے 12 امیدوار میدان میں اتارے تھے۔
اس کے علاوہ مختلف دعوؤں کے مطابق آئی پی پی نے قومی کی 13 اور صوبائی اسمبلی کی 22 سیٹوں پر مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کیا تھا تاہم ان تمام تر پھرتیوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششوں کے باوجود استحکام پاکستان پنجاب میں صرف ایک ہی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ قومی اسمبلی کی تین نشستیں پارٹی کے حصے میں آئیں۔
پارٹی کے سرپرست اعلیٰ اور روح رواں جہانگیر ترین اپنی تمام تر نشستوں پر الیکشن ہار گئے ہیں جس کے باعث انہوں نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پارٹی صدر علیم خان این اے  117 سے اپنی قومی اسمبلی کی نشست جبکہ پی پی 149 سے پنجاب اسمبلی کی واحد نشست جیت گئے ہیں۔ اس کے علاوہ این اے 128 سے عون چوہدری اور این اے 88 سے گل اصغر خان اپنی نشست جیت گئے ہیں۔
عون چوہدری کی جیت کا نوٹیفکیشن عدالتی حکم کے بعد واپس ہو چکا ہے جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سلمان اکرم راجہ نے جیت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ آئی پی پی کی جیتی ہوئی نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے جیت کے دعوے کر رکھے ہیں۔ مجموعی طور پر آئی پی پی نے پنجاب اسمبلی میں ناکام رہی ہے جبکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے علیم خان اور عون چوہدری جیت چکے ہیں۔ آئی پی پی کی ناکامی کے بعد پارٹی کے مستقبل بارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

علیم خان آزاد اراکین کو پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (فوٹو: فلکر)

اس وقت استحکام پاکستان پارٹی پنجاب میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے جبکہ ایک سیٹ کے ساتھ پارٹی کو مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہنے کا امکان ہے۔ اس لیے پارٹی کی مرکزی قیادت آزاد منتخب اراکین کو پارٹی میں شامل کر کے مخصوص نشستوں میں اپنا حصہ لینا چاہتے ہی‍ں۔ اس حوالے سے پارٹی صدر علیم خان متحرک ہو گئے ہیں۔
گزشتہ روز  پنجاب اسمبلی کے چار آزاد اراکین استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہوئے۔ پی پی 284 تونسہ سے حافظ طاہر قیصرانی، پی پی 270 مظفر گڑھ سے زاہد اسمٰعیل بھٹہ، پی پی 296 راجن پور سے سردار اویس دریشک اور پی پی 91 بھکر سے غضنفر عباس چھینہ نے عبدالعلیم خان سے ملاقات میں استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
ان کا کہنا تھا کہ مزید 10 سے 15 اراکین اسمبلی سے رابطے میں ہیں جو چند روز میں آئی پی پی میں شامل ہوں گے۔
سینیئر صحافی سلمان عابد نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آزاد اراکین کی شمولیت سے پارٹی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
’میرا نہیں خیال کہ آئی پی پی کا کوئی بڑا مستقبل ہے اگرچہ تین چار ایم پی اے پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، وہ بھی کسی نے شامل کروائے ہوں گے لیکن وہ اس بنیاد پر ایک دو مخصوص نشستیں حاصل کر پائیں گے تاہم مستقبل ان کا کوئی نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی کا ووٹر بھی ان کے خلاف ہے اور عام ووٹر بھی ان کے خلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کردار بہت ہی غیر جمہوری اور غیر اخلاقی تھا۔‘
آئی پی پی کے وجود میں آنے کے بعد مرکزی قیادت نے بھرپور انداز میں منشور پیش کیا اور کئی جلسے بھی کیے۔ جلسوں میں انتخابی دعوؤں سے اندازے لگائے جا رہے تھے کہ استحکام پاکستان پارٹی مرکز اور پنجاب میں ایک بڑا حصہ حاصل کر پائے گی تاہم انہیں ناکامی کا سامنا رہا۔

پاکستان تحریک انصاف کے حامی آزاد امیدوار انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کر چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے سلمان عابد بتاتے ہیں کہ ’آئی پی پی کی تشکیل اور پیدائش ہی غیر قانونی تھی۔‘
’اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت ایک پارٹی کو کھڑا کیا گیا جس کے لیے پی ٹی آئی کو توڑا اور تقسیم کیا گیا۔ کوشش کی گئی کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک نئی قوت بنائی جا سکے لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر نکلا ہے اور یہ پہلے سے معلوم تھا کہ آئی پی پی کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے۔‘
چونکہ پارٹی بنانے والے جہانگیر ترین مستعفی ہو چکے ہیں اس لیے اب الیکشن میں ناکامی کے بعد پارٹی کے مستقبل بارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

شیئر: