Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ ہائیکورٹ، توہین مذہب کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والا پروفیسر بری

سال 2019 میں سندھ کے علاقے گھوٹکی میں عبدالعزیز نامی ایک شہری نے گھوٹکی تھانے میں ایک مقدمہ درج کرایا تھا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے استاد پر مبینہ توہین مذہب کا الزام عدالت نے غلط قرار دیتے ہوئے اُن کو بری کر دیا ہے۔
جمعے کو سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ سکھر نے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر نوتن لال کے خلاف مبینہ توہین مذہب کے کیس کی سماعت کی۔
سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے فاضل جج نے پروفیسر پر لگے الزامات پر فریقین کے وکلا کے دلائل سنے، دلائل سننے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے پروفیسر نوتن لال کی مقامی عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ سال 2019 میں سندھ کے علاقے گھوٹکی میں عبدالعزیز نامی ایک شہری نے گھوٹکی تھانے میں ایک مقدمہ درج کرایا تھا۔
مدعی مقدمہ نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کے بیٹے کے استاد نے کلاس روم میں مبینہ طور پیغمبر اسلام کی شان مین گستاخی کی ہے۔ انہوں نے پولیس سے مطالبہ کیا تھا کہ غیرمسلم استاد پر توہین مذہب کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔
انہوں نے پولیس کے سامنے دو گواہ بھی پیش کیے تھے۔
اس واقعے کے بعد سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا تھا۔ عوامی دباؤ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے پروفیسر کو حراست میں لیا تھا اور اس کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
واقعے کے بعد سندھ میں ہندو برادری کے مذہبی مقامات سمیت دیگر جگہوں پر مخالفین کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
ٹرائل کورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور پروفیسر نوتن لال کو عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
ملزم کی اپیل پر سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے کیس کی سماعت کی اور متعدد پیشیوں میں فریقین کو سننے کے بعد مقامی عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پروفیسر کو بری کیا اور ان کی رہائی کا حکم سنایا۔

شیئر: