Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کے الشفا ہسپتال میں فوجی کارروائی شروع کر دی

اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کا شہر تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا کے ارد گرد ایک آپریشن شروع کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی شفا ہسپتال میں محتاط انداز سے آپریشن کر رہے ہیں۔
’یہ آپریشن انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہو رہا ہے جس میں حماس کے سینیئر دہشت گردوں کی جانب سے ہسپتال کے استعمال کا اشارہ ملا ہے۔‘
غزہ شہر میں عینی شاہدین نے بتایا کہ ہسپتال کو ٹینکوں نے گھیر لیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے نومبر میں بھی الشفا ہسپتال میں ایک آپریشن کیا تھا جس پر بین الاقوامی سطح پر برہمی کا اظہار ہوا تھا۔
غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں فلسطینیوں نے کمپلیکس میں پناہ حاصل کی ہے۔
اسرائیل بارہا حماس پر ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز سے فوجی آپریشن چلانے کا الزام لگاتا رہا ہے تاہم حماس اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔
غزہ میں حماس کے سرکاری میڈیا دفتر نے آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’الشفا میڈیکل کمپلیکس پر ٹینکوں، ڈرونز اور ہتھیاروں سے حملہ اور اس کے اندر فائرنگ کرنا جنگی جرم ہے۔‘
جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے ارد گرد طبی مراکز پر کئی آپریشن کیے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے نومبر میں بھی الشفا ہسپتال میں ایک آپریشن کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے سات اکتوبر کو غزہ سے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً 11 سو 60  افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں نے تقریباً 250 اسرائیلی اور غیرملکی شہریوں کو یرغمال بنایا تھا تاہم نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران متعدد افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ تقریباً 130 یرغمالی غزہ میں موجود ہیں جن میں 33 افراد کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کو تباہ کرنے کے عزم کے ساتھ اسرائیل نے غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی کارروائی کی ہے جس میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 31 ہزار 645 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

شیئر: