Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے ’الیکشن کنگ‘ 238 بار ہار کر پھر انتخابی میدان میں

انڈیا میں عوامی عہدے کے حصول کے لیے انتخابات میں 238 مرتبہ ناکام ہونے کے باوجود کے پدماراجن کو کوئی فکر ہی نہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 65 برس کے پدماراجن کی ٹائر مرمت کرنے کی دکان ہے۔ انہوں نے 1988 سے جنوبی ریاست تمل ناڈو میں اپنے آبائی شہر میٹور سے الیکشن میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عام لوگ بھی الیکشن میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔
پدماراجن نے کہا کہ ’تمام امیدوار انتخابات میں جیت کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن میں نہیں۔‘
ان کے لیے کامیابی حصہ لینے میں ہے اور جب ان کو شکست ہوتی ہے تو وہ ’بخوشی ہارتے‘ ہیں۔
رواں برس 19 اپریل سے شروع ہونے والے انڈیا کے چھ ہفتے کے طویل عام انتخابات میں وہ تامل ناڈو کے ضلع دھرما پوری کے پارلیمانی نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
وہ اپنے علاقے میں ’الیکشن کنگ‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ پدماراجن نے ملک بھر میں صدارتی سے لے کر مقامی انتخابات تک کے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔
گزشتہ برسوں میں وہ وزیراعظم نریندر مودی، سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی سے ہار چکے ہیں۔

’میں پروا نہیں کرتا‘
ان کا خیال ہے کہ کامیابی ثانوی چیز ہے۔ ’میرا مخالف امیدوار کون ہے؟ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
ان کے مطابق وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے میں انتخابی نامزدگیوں کی فیس میں ہزاروں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔
انہوں نے سکیورٹی ڈپازٹ میں 25 ہزار روپے (300 ڈالر) جمعے کرائے ہیں اور وہ اس وقت واپس نہیں کیے جائیں گے جب تک وہ 16 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتے۔
ان کی واحد کامیابی لِمکا بک آف ریکارڈز میں انڈیا کے سب سے ناکام امیدوار کے طور پر جگہ حاصل کرنا ہے، جس میں انڈینز کی جانب سے قائم کیے گئے ریکارڈز شامل کیے جاتے ہیں۔
پدماراجن کی بہترین کارکردگی 2011 میں تھی جب وہ میٹور میں اسمبلی انتخابات حصہ لے رہے تھے۔ انہوں نے چھ ہزار 273  ووٹ حاصل کیے جبکہ مقابل امیدوار نے 75 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ایک ووٹ کی بھی امید نہیں تھی ’لیکن اس سے ظاہر ہوا کہ لوگ مجھے قبول کر رہے ہیں۔‘
ٹائر مرمت کی دکان کے علاوہ پدماراجن ہومیو پیتھک علاج کرتے ہیں اور ایک مقامی میڈیا کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔
تاہم تمام ملازمتوں میں ان کے لیے سب سے اہم الیکشن لڑنا ہے۔
’یہ الیکشن میں شمولیت کے بارے میں ہے۔ لوگ اپنی نامزدگیاں کرانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس لیے میں ایک رول ماڈل بننا چاہتا ہوں تاکہ لوگوں میں آگاہی پیدا ہو۔‘

’ناکامی بہترین چیز ہے‘
پدماراجن نے ہر الیکشن کے کاغذات نامزدگی اور شناختی کارڈز کے تفصیلی ریکارڈ کو محفوظ رکھا ہے۔
سب پر انتخابی مہم کے نشان موجود ہیں اور اس مرتبہ ان کا انتخابی نشان ٹائر ہے۔
پدماراجن کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایک مشکل مرحلے کے بعد وہ کیسے دوبارہ تیار ہو سکتے ہیں اور مقابلہ کر سکتے ہیںَ
’میں جیتنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ناکامی بہترین چیز ہے۔ اگر ایسا ہو گا تو ہم دباؤ نہیں لیتے۔‘
جمہوریت کے لیے پدماراجن کا سبق ایک ایسے وقت سامنے آتا ہے جب انڈیا کے جمہوری عمل کے لیے عوامی حمایت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
انڈیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مودی کے دور حکومت میں جمہوریت تیزی سے غیر لبرل ہوتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کئی مجرمانہ تحقیقات کے نتیجے میں رواں برس انتخابات یک طرفہ دکھائی دے رہے ہیں۔

تاہم پدماراجن کا کہنا ہے کہ یہ اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ ملک کا ہر شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرے۔
’یہ ان کا حق ہے، وہ اپنا ووٹ ڈالیں، اس حوالے سے کوئی جیت یا ہار نہیں ہے۔‘
پدماراجن کے مطابق وہ اپنی آخری سانس تک الیکشن لڑتے رہیں گے لیکن اگر وہ کبھی جیت گئے تو حیران رہ جائیں گے۔
’مجھے دل کا دورہ پڑے گا۔‘ انہوں نے قہقہہ لگایا۔

شیئر: