Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے امتحانی مراکز میں نقل کروانے والا مافیا کتنا طاقتور ہے؟

کچھ بچوں سے بُوٹیاں پکڑی گئیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ انہیں کیسے اندر لے کر آئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ مسلسل تیسرا روز تھا جب پنجاب کے امتحانی مراکز میں ایک طرح سے بھونچال کی کیفیت تھی۔ میٹرک کے امتحانات ہو رہے تھے اور یہ 30 مارچ کا دن تھا۔ 
صوبائی دارالحکومت لاہور کے چار بڑے امتحانی مراکز پر چھاپے مارے گئے اور ہوشرُبا انکشافات سامنے آئے۔ نقل کروانے میں امتحانی مراکز کا عملہ براہ راست ملوث تھا۔ ثبوتوں کے انبار لگ چکے تھے۔ 
جن چار امتحانی مراکز پر ان دنوں چھاپے مارے گئے ان میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج سبزاہ زار، پی آئی اے سوسائٹی میں ایک نجی امتحانی مرکز، سول لائنز کالج اور ڈی پی ایس ماڈل ٹاؤن شامل تھے۔
سول لائنز کالج میں پیپر دینے والے ایک طالب علم فیاض (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم پیپر دینے کے لیے ہال میں موجود تھے، یہ ہمارا تیسرا پیپر تھا اور عملہ بہت ہی عجیب حرکتیں کر رہا تھا۔
فیاض کے مطابق ’کبھی امتحان دینے والے بچوں کی جگہیں تبدیل کروا دی جاتیں اور کئی بچوں کو تو وہ باقاعدہ نقل بھی کرواتے تھے۔‘
’اس دن بھی یہ ہو رہا تھا کہ اچانک کچھ ٹیمیں باہر سے آگئیں اور انہوں نے بچوں سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ ڈیوٹی پر موجود عملے سے سوال جواب کیے اور وہ عملے سے سختی سے پیش آرہی تھیں۔‘ 
طالب علم نے بتایا کہ ’کئی بچوں نے شکایت لگائی اور کچھ بچوں سے بُوٹیاں بھی پکڑی گئیں جنہوں نے بتایا کہ وہ انہیں کیسے اندر لے کر آئے اور اس کے لیے انہوں نے کسے پیسے دیے تھے۔‘
اسی دن ہی گورنمنٹ گریجویٹ کالج سبزہ زار میں بھی کچھ ایسی ہی صورت تھی۔ جو بچے نقل کرتے پکڑے گئے انہوں نے امتحانی عملے کا نام لیا۔ 
شام تک امتحانی عملے کے 6 افراد کو پولیس گرفتار کر چکی تھی۔ ان چھ افراد سے جو تفتیشی اداروں نے جو معلومات نکلوائیں تو صورتِ حال کی سنگینی نے نیا رُخ اختیار کر لیا۔ 
30 مارچ کی رات 10 بجے چیف سیکریٹری پنجاب کو اپنا دفتر کھول کر لاہور بورڈ کے چیئرمین اور کنٹرولر کو معطل کرنا پڑا جبکہ آدھی رات کو کمشنر لاہور کو لاہور بورڈ کا اضافی چارج دے دیا گیا۔

 رانا سکندر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اتنے بڑے مافیا کے فریم ورک کو توڑ کے رکھ دیا ہے‘ (فائل فوٹو: رانا سکندر حیات فیس بُک)

بوٹی مافیا کیسے کام کرتا ہے؟
پنجاب کے امتحانی مراکز میں بُوٹی مافیا کیسے کام کرتا ہے اس  سے متعلق خود صوبائی وزیرِ تعلیم رانا سکندر حیات نے اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کے پاس کئی طریقے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جس رات ہم نے چیئرمین لاہور بورڈ اور کنٹرولر کو ہٹایا اس دن جو طریقہ ہمارے سامنے آیا تھا اس نے تو ہمیں بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔‘
صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ ’اس مافیا نے پورے امتحانی مراکز خریدے ہوئے تھے اور وہاں اُن کا اپنا عملہ تعینات تھا۔ ان لوگوں سے پیسے لے کر امتحانی مراکز دینے میں خود بورڈز کی اسٹیبلشمنٹ شامل تھی۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’لاہور کے امتحانی مراکز میں سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس شیخوپورہ سے لائے گئے تھے اور ان کی تعداد 77 تھی۔‘
’آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ باہر کے شہروں سے لوگ لا کر امتحانی مراکز کی نگرانی اور پھر آگے جو عملہ تعینات تھا اِس میں خود ایف اے اور بی اے کے طالب علم تھے۔‘
ان کے مطابق ’یہ سب کچھ ہمارے لیے بھی انکشاف تھا کہ یہ نقل محض کسی عملے کا ذاتی معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک بہت بڑی منصوبہ بندی سے پورے کے پورے امتحانی مراکز خریدے گئے تھے ان پر اپنی مرضی کا عملہ لگایا تھا۔‘

’امتحانی مراکز کی خریدوفروخت میں ملوث 65 افراد گرفتار ہو چکے ہیں اور اتنے ہی مفرور ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’بچوں سے رابطے کر کے ایک دن پہلے رات کو اُنہیں پرچے دیے جاتے تھے یا پھر ان کو امتحان والے دن وہاں نقل کروانے کا مکمل بندوبست کیا جاتا، اور ان سب کا ریٹ تھا جو زیادہ پیسے دے اس کو پرچہ ایک دن پہلے ہی مل جاتا تھا۔‘
وزیر تعلیم نے پوری تفصیل سے بتایا کہ کیسے میٹرک کے امتحانات میں کتنے بڑے پیمانے پر بُوٹی مافیا متحرک ہے۔
یہ بوٹی مافیا ہے کیا؟
جب پنجاب کے وزیرِ تعلیم سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک ہم جو بڑے نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کی تعداد سات ہے، تاہم میں ان کے نام ابھی براہ راست نہیں لوں گا۔‘
’اعلٰی سطح پر تمام ثبوتوں اور ریکارڈ کے ساتھ یہ سب کچھ پیش کیا جا چکا ہے۔ وزیراعلٰی پنجاب خود اب اس معاملے کی نگرانی کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’تین بڑے نیٹ ورک تین بڑے نجی تعلیمی اداروں کی چین کے ہیں۔ پنجاب بھر میں ان کی سینکڑوں شاخیں موجود ہیں۔‘
’انہوں نے اپنے بچوں کے سب سے زیادہ نمبر لانے کی دوڑ میں یہ کام شروع کر رکھا ہے۔ تعلیمی بورڈز کے اندر سرکاری افسران ایک نیٹ ورک موجود ہے جو پیسے مل بانٹ کر کھاتا ہے۔‘ 

صوبائی وزیر کے مطابق ’تعلیمی بورڈز میں سرکاری افسران کا نیٹ ورک موجود ہے جو پیسے مل بانٹ کر کھاتا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رانا سکندر حیات کے مطابق ’یہی تین بڑے گروپ ہم نے پکڑے ہیں جو اِن نجی تعلیمی اداروں اور بورڈز کے درمیان ٹھیکے کا کام کرتے ہیں۔ زمینی انتظامات سارے ان کے پاس ہیں۔ ان سب کی شناخت کر کے رپورٹ وزیراعلٰی اور چیف سیکریٹری سمیت ہر جگہ بھجوا دی گئی ہے۔‘
وزیر تعلیم سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر ان مافیاز کی شناخت ہو چکی ہے تو اِن پر ہاتھ ڈالنا یا اُن کا نام لینا حکومت کے لیے اتنا مشکل کیوں ہے؟ 
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’نام اس لیے بھی نہیں لے رہے کہ میرا خیال ہے اس سے تعلیمی نظام کا حرج ہو گا۔ مجھے خاموش رہنے کے لیے رشوت میں زمین اور گھر کی پیش کش کی گئی اور ڈرایا بھی گیا۔‘
رانا سکندر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایک کام کیا ہے کہ اتنے بڑے مافیا کے فریم ورک کو توڑ کے رکھ دیا ہے۔ اب تک 65 افراد گرفتار ہو چکے ہیں اور اتنے ہی مفرور ہیں۔‘
’ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ہم ان کو اس طرح کا کام نہیں کرنے دیں گے۔ میں عدالتوں کو بھی لکھوں گا کہ ان افراد کی ضمانتیں نہ لیں، یہ قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے بُوٹی مافیا کے خلاف شہباز شریف کی وزارتِ اعلٰی کے دوران اسی طرح کے گرینڈ آپریشن کیے جاتے تھے جن کی جھلک اب دوبارہ کئی برسوں کے بعد پنجاب کے امتحانی مراکز میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔

شیئر: