Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی کی پہچان ’دال مکھنی‘ اور ’چکن مکھنی‘ کا خالق کون ہے؟

موتی محل اور دریا گنج ریستوران دونوں ہی دال مکھنی اور چکن مکھنی متعارف کرانے کا دعوٰی رکھتے ہیں (فوٹو: لنکڈ ان)
یہ دہلی کا ایک ڈھابہ ہے، رات گہری ہو رہی ہے۔ ڈھابے کے مالک اور اس کے ساتھی ڈھابہ بند کر رہے ہیں۔ وہ اس اثنا میں یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ مہمان ڈھابے کی جانب آ رہے ہیں۔ وہ بھوک سے نڈھال ہیں۔ ڈھابے کا مالک یہ نہیں چاہتا کہ اس کے مہمان خالی پیٹ واپس لوٹیں۔ کھانے میں کچھ موجود تو نہیں مگر اس کا اختراع ساز ذہن فوری طور پر کام کرتا ہے۔
وہ ٹماٹروں کی بچی ہوئی گریوی، مکھن اور اس میں دیگر مسالے ملانے کے بعد خالی ہو چکے برتنوں میں سے ایک میں سے تندوری چکن کے کچھ بچے ہوئے ٹکڑے نکالتا ہے اور اسے اس گریوی میں ڈال دیتا ہے۔ مہمانوں کو کھانا پروسا جاتا ہے تو وہ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ کھانے کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتے جس پر ہوٹل کا مالک اگلے ہی روز اس ڈش کو اپنے منیو میں ‘مکھنی چکن’ کے نام سے شامل کر لیتا ہے۔
یہ کہانی دہلی کے مشہور زمانہ ریستوران ‘موتی محل’ کے کندن لال جگی کی ہے جنہوں نے مکھنی چکن کی کامیابی کے بعد ماش کی دال سے ایک نئی ڈش بنائی۔ کندن لال جگی نے رات بھر دال کو تندور پر پکایا جس میں ازاں بعد ٹماٹروں، مکھن، مختلف مسالہ جات اور لال لوبیہ وغیرہ شامل کیا۔ رات بھر پکنے کے باعث دال کے ذائقے میں منفرد لذت پیدا ہوگئی۔ انہوں نے اسے ‘دال مکھنی’ کا نام دیا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا اور یہ دہلی کی اہم ترین سوغات بن گئی۔
سوال یہ ہے کہ کیا چکن مکھنی اور دال مکھنی کندن لال جگی نے ہی بنائی تھی؟ اس معاملے پر ان دنوں دہلی ہائیکورٹ میں سماعت جاری ہے کہ دال مکھنی، چکن مکھنی اور تندوری چکن کو بنانے والے کندن لال جگی ہی تھے یا یہ ڈشز ان کے ہم نام دوست کندن لال گجرال کے ذہن کی اختراع تھیں؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل کندن لال گجرال کا کچھ ذکر ہو جائے۔
کندل لال گجرال تقسیم سے قبل پنجاب کے ضلع چکوال میں سال 1902 میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دوسرے ہندو کھتری خاندانوں کی طرح کاروبار کرتے تھے۔ ان کا ایک بھائی چنن لال پچپن میں ہی نمونیا سے چل بسا تھا۔ انہوں نے چکوال سے میٹرک کیا اور اس زمانے کے بہت سے دیگر ہندو کتھری نوجوانوں کی طرح کام کی تلاش میں پشاور کا رُخ کیا اور ‘موتی محل’ نامی ایک ہوٹل میں کام کرنے لگے۔

موتی محل ریستوران کی جانب سے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ دریاگنج نے غلط طور پر چکن مکھنی کا کریڈٹ لیا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

کندن لال گجرال بٹوارے کے دنوں میں انڈیا ہجرت کر گئے اور  پرانی دہلی کے علاقے دریاگنج میں ‘موتی محل’ کے نام سے ڈھابے کی بنیاد رکھی۔
آپ کے ذہنوں میں یقیناً یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ جب کندن لال جگی اسی نام سے ڈھابہ بنا ہی چکے تھے تو کندن لال گجرال کہاں سے ٹپک پڑے؟ کہانی کو دوبارہ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے ادھوری چھوڑی تھی۔
پشاور کے موتی محل ریستوران میں کندن لال گجرال کے علاوہ کندن لال جگی اور  ٹھاکر داس مگو بھی کام کرتے تھے۔ ان تینوں کی یہیں دوستی ہوئی جو تقسیم کے بعد بھی قائم رہی اور ان تینوں نے مل کر دریاگنج میں اسی نام سے ڈھابہ کھولا۔ چند ہی برسوں میں ان کے ڈھابے کی دھوم دارالحکومت بھر میں پھیل چکی تھی اور یہ چار سو لوگوں کی گنجائش کا حامل ایک بڑا ریستوراں بن چکا تھا جس کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے والوں میں سابق انڈین وزرائے اعظم جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین، اداکار راج کپور، اداکارہ نرگس دت کے علاوہ سوویت لیڈر گورپاچوف بھی شامل تھے۔
موتی محل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو کی سرکاری رہائش گاہ پر تندور لگایا اور ریستوران کا عملہ وہاں جا کر نان اور کباب بنایا کرتا تھا جن سے عالمی رہنمائوں کی تواضع کی جاتی تھی۔
کندن لال گجرال نے تندوری چکن تو پشاور میں ہی بنا لیا تھا جہاں وہ گورا بازار کے ایک ریستوراں میں کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے چکن کے ٹکڑوں کو دہی لگا کر تندور میں رکھ دیا جو اس سے قبل صرف روٹیاں بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کا تجربہ کامیاب رہا اور وہ مشہور تندوری چکن بنانے میں کامیاب رہے۔

دنوں دہلی ہائیکورٹ میں دونوں ریستورانوں کے درمیان کیس چل رہا ہے (فوٹو: این ڈی ٹی وی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ کندن لال جگی کی طرح کندن لال گجرال بھی مرغ مکھنی اور دال مکھنی بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ کندن لال گجرال کی مرغ مکھنی بنانے کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ ان دنوں چوں کہ ریفریجریٹر کی سہولت موجود نہیں تھی تو کندن لال گجرال کو اسے محفوظ بنانے کا ایک انوکھا طریقہ سوجھا۔
انہوں نے تندوری چکن کو نرم کرنے کے لیے اس پر ٹماٹروں کی گریوی اور مکھن لگا دیا تاکہ یہ نرم رہے اور اگلے دن استعمال کیا جا سکے۔ یوں یہ مشہور زمانہ ڈش تخلیق ہوئی۔
  اس وقت موتی محل ریستوران کو ان کے پوتے چلا رہے ہیں جس کی انڈیا کے علاوہ دنیا بھر میں ڈیڑھ سو سے زیادہ شاخیں ہیں اور یہ انڈیا کے روایتی کھانوں کا ایک اہم ترین مرکز جانا جاتا ہے۔

دال مکھنی اور چکن مکھنی کو انڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بہت پسند کیا جاتا ہے (فوٹو: فوڈ ریسیپیز)

کندن لال جگی اور کندن لال گجرال  نے 90 کی دہائی میں ‘موتی محل’ فروخت کر دیا مگر ان کی نسلوں نے اسے زندہ رکھا جیسا کہ موتی محل اب کندل لال گجرال کے پوتے منیش گجرال چلا رہے ہیں جب کہ دریا گنج  کی بنیاد کندن لال جگی کے پوتے راگھوو جگی اور ان کے دوست امیت بگا نے رکھی اور ‘دریا گنج، بائی دی انوینٹرز آف بٹر چکن اینڈ دال مکھنی’ کے نام سے اپریل 2019 میں ریستوران کھولا جسے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کندن لال گجرال اور کندل لال جگی صرف دوست ہی نہین بلکہ رشتہ دار بھی تھے مگر کئی دہائیوں پر محیط موتی محل کی کہانی اس وقت شہ سرخیوں میں آئی جب رواں سال جنوری میں موتی محل ریستوران کے مالکان کی جانب سے دریا گنج ریستوران کے خلاف دہلی ہائیکورٹ میں دو ہزار سات سو 52 صفحات پر مشتمل دعوی دائر کیا گیا جس میں دریاگ نج پر غلط طور پر مکھنی چکن کی ایجاد کا کریڈٹ لینے کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ معاملہ سردست عدالت میں زیر سماعت ہے۔

انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی بھی کندن لال گجرال کے کھانے پسند کرتی تھیں (فوٹو: ایشو وائر)

الجزیرہ اس حوالے سے موتی محل کے موجودہ مالک منیش گجرال کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ‘حقیقت میں ان کے دادا کندن لال گجرال نے ان ڈشز کو ایجاد کیا۔’
الجزیرہ کے مطابق دوسری جانب دریا گنج کے مالکان کا یہ دعوٰی ہے کہ آنجہانی کندن لال جگی نے سال 1947 میں موتی محل کھولنے کے لیے کندن لال گجرال کے ساتھ شراکت داری کی تھی جہاں یہ ڈش تیار کی گئی۔ وہ یہ استدلال بھی پیش کرتے ہیں کہ یوں ان ڈشز کی ایجاد کے حوالے سے وہ یہ دعوٰی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ موتی محل نے عدالت میں دائر کیے گئے دعوے میں دو کروڑ روپے بطور ہرجانہ بھی طلب کیا ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عدالت دریا گنج کو اس دعوے کو استعمال کرنے سے روکے کہ ان کے بزرگوں نے پہلی بار چکن مکھنی اور دال مکھنی بنائی تھی۔
الجزیرہ اس حوالے سے لکھتا ہے، ‘دہلی ہائی کورٹ میں سال 2018 میں بھی دو کباب فروخت کرنے والوں کی جانب سے ایسا ہی دعوی دائر کیا گیا تھا جو ‘ٹنڈے کباب’ کے نام سے مشہور ہیں۔‘
پشاور کے ‘ڈھابے’ سے شروع ہوئی یہ کہانی عدالتی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
سلرپ ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ڈھابے کے مالک موکھا سنگھ کی طیعت ناساز رہنے لگی تو انہوں نے اپنا ڈھابہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کندن لال گجرال نے یہ ڈھابہ خرید لیا اور اس کا نام ‘موتی محل’ رکھا۔ وہ اس وقت تک انجان تھے کہ وہ انڈین کوزین کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔

دریا گنج ریسٹورنٹ کو کندن لال جگی کے پوتے راگھوو جگی نے رکھی جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی (فوٹو: دریاگنج)

اس وقت یہ معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور فی الحال مئی کے پہلے ہفتے میں اس حوالے سے سماعت ہو گی۔ اکنامک ٹائمز اپنے ایک مضمون میں اس معاملے کے قانونی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے لکھتا ہے، ‘اس تنازع پر عدالت کے فیصلے کا انحصار بڑی حد تک کندن لال گجرال اور کندن لال جگی کی شراکت داری کے تناظر میں دیا جائے گا۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دونوں فریق ہی موتی محل کے بانی اور شراکت دار رہے ہیں اور انہوں نے 1950 کی دہائی میں پارٹنرشپ کی۔’
عدالتی تفصیلات میں مزید جائے بغیر ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ دینا ازبس ضروری ہے جس کے مطابق ’یہ 1930 کی دہائی ہے جب اداکار و گلوکار کندن لال سہگل دیوداس کے ذریعے باکس آفس پر ریکارڈز توڑ رہے ہیں۔ اس وقت ان کے ہی دو ہم نام پشاور میں ذائقوں کے فن میں مہارت حاصل کر رہے تھے۔ ان دونوں نے مکھنی چکن بنایا جسے آن لائن فوڈ گائیڈ گزشتہ برس جون میں دنیا بھر میں چکن سے بنائی جانے والی سو بہترین ڈشز میں تیسرا نمبر دے چکی ہے۔’
مکھنی دال ہو یا تندوری چکن، چکن پکوڑا ہو یا چکن تندوری، یہ تمام ڈشنز انڈیا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں جن کے ذائقے سے پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے تھے۔

سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اور پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی انڈین کھانوں کو پسند کرتے تھے (فوٹو: ایکس، یو ایس قونصلیٹ)

اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ گجرال اور جگی کی اختراع اس وقت دنیا بھر میں پسند کی جا رہی ہے جسے کھانے اور پسند کرنے والوں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کندن لال گجرال اور کندن لال جگی کی شراکت داری میں تیار کی جانے والی یہ دونوں ڈشز اب دہلی کی پہچان بن چکی ہیں اور چوں کہ ان کے پیٹنٹ حقوق تو ہیں نہیں جس کے باعث اپنے ذائقوں کو بہتر سے بہتر بنانے والا ہی اس دوڑ کا فاتح قرار پائے گا۔

شیئر: