Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پہلے شناخت پوچھی اور پھر۔۔‘، نوشکی میں عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

مسلح افراد نے بس میں داخل ہوتے ہی شناخت پوچھی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو کھڑا ہونے کو کہا۔ ہم سمجھے کہ کوئی چور ڈاکو ہیں لوٹ مار کریں گے، موبائل وغیرہ لے جائیں گے اور کوئی تھپڑ ماریں گے لیکن چھوڑ دیں گے، ہمیں کیا پتہ تھا کہ سب کو گولیاں مار دیں گے۔‘
یہ الفاظ لاہور کے علاقے شاہدرہ کے رہائشی طارق حسین کے ہیں جو اُس بس میں سوار تھے جس کے نو مسافروں کو نامعلوم عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں اغوا کے بعد گولیاں مار کر قتل کردیا۔
حکام کے مطابق کوئٹہ کو تفتان سے ملانے والی این 40 شاہراہ پر نوشکی سے چند کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے مقام پر جمعے کی شب عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مجموعی طور پر گیارہ افراد قتل ہوئے۔
ایس ایس پی نوشکی اللہ بخش بلوچ کے مطابق ’نو افراد کو مسافر بس سے اتارنے کے بعد قتل کیا گیا جبکہ دو افراد کی موت اس وقت ہوئی جب نہ رکنے پر دہشت گردوں نے ان کی گاڑی کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ فائرنگ کے بعد گاڑی حادثے کا شکار ہوکر سڑک سے نیچے جاگری۔‘
ایس ایس پی کے مطابق مسافر بس کوئٹہ سے تفتان جارہی تھی جس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شناخت کے بعد بس سے اتارا گیا اور پھر قریبی پہاڑی میں لے جا کر ان کا قتل کیا۔

مقتولین کی عمریں 20 سے 35 سال کے درمیان ہیں

قتل کیے گئے افراد کی میتیں نوشکی سے سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئیں جہاں میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر عائشہ فیض نے بتایا کہ مرنے والوں کی عمریں 20 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو سینے اور پیٹ میں کچھ کو سروں میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ کچھ کو لوہے کے چھرے بھی لگے ہیں۔‘
ضابطے کی کارروائی کے بعد میتیں ایدھی سینٹر اور پھر پولیس لائن لے جائی گئیں جہاں نماز جنازہ ادا کی گئیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، ارکان اسمبلی، پولیس، ایف سی اور سرکاری محکموں کے افسران نے شرکت کی۔ بعد ازاں میتوں کو آبائی علاقوں کو  روانہ کردیا گیا۔ پولیس کے مطابق مرنے والوں میں چھ کا تعلق منڈی بہاؤ الدین، دو کا تعلق گوجرانوالہ اور ایک کا تعلق وزیر آباد سے تھا۔

زندہ بچ جانے والوں نے کیا دیکھا؟

طارق حسین قتل ہونےوالے ان افراد کے ہمراہ کوئٹہ سے تفتان کے راستے ایران جارہے تھے۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ہم جمعے کی شام کو کوئٹہ سے نکلے۔ ایک پل کے قریب پہلے ایک آدمی نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن ڈرائیور نے بس نہیں روکی لیکن  کچھ فاصلے پر کچھ اور مسلح افراد  کھڑے تھے جنہوں نے بس روکی اور ان میں سے دو افراد اندر داخل ہوئے۔‘

گوجرانوالہ کے رہائشی شاہ زیب کے رشتہ دار افسردہ کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق شاہ زیب اپنے خاندان کی قسمت بدلنے کے لیے یورپ جانا چاہتا تھا۔ (فوٹو: بشکریہ محسن خالد)

انہوں نے بتایا کہ مسلح افراد نے داخل ہوتے ہی پوچھا کہ ’تم میں سے کون کون پنجاب  سے ہے؟ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا مجھ سے آگے ایک فیملی بیٹھی تھی جن کے ہمراہ خواتین اور ایک بچہ بھی تھا۔ ان کا تعلق بھی پنجاب سے تھا۔ مسلح افراد نے فیملی کا حصہ سمجھ کر مجھے بھی کچھ نہیں کہا اور بس کی پچھلی جانب گئے جہاں نوجوان لیٹے ہوئے تھے۔‘
طارق حسین کے مطابق مسلح افراد نے پنجاب سے ان کے تعلق کی تصدیق کی اور پھر انہیں نیچے اتار کر لے گئے۔ بس ڈرائیور کو کہا کہ ’جلدی سے یہاں سے نکلو۔‘
ان کے بقول ’میں سمجھا کہ یہ کوئی چور یا ڈاکو ہیں جوموبائل وغیرہ چھینیں گے، شاید کوئی تھپڑ ماریں گے اور چھوڑ دیں گے۔ ہم نے کون سا کوئی غلط کام کیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ سب کو بے دردی سے مار دیا گیا ہے۔‘
عینی شاہد زاہد عمران بھی اس بس میں سوار تھے وہ خود تو بچ گئے لیکن ان کے گاؤں کے چھ افراد اس واقعہ میں مارے گئے۔
زاہد عمران اپنے ساتھیوں  کی میتوں کے ہمراہ نوشکی سے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچے تو صدمے سے بے حال نظر آرہے تھے۔
انہوں نے  بتایا کہ ’منڈی بہاؤ الدین چک فتح شاہ کے ہم سات لوگ تھے۔ ہم سب ایک ساتھ گاؤں سے نکلے تھے وہ سب مارے گئے لیکن میں بچ گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم عید سے کچھ دن پہلے اپنے گھروں سے نکلے تھے تاکہ ایران جاکر محنت مزدوری کرسکیں۔ گاؤں میں اتنی مزدوری نہیں ملتی۔ میں خود رنگ کا کام کرتا ہوں، ہمارے ساتھ دو اورلوگ مستری  کا کام جانتے تھے اس لیے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔‘
واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے زاہد عمران  نے بتایا کہ ’بس میں 40 کے لگ بھگ افراد سوار تھے ان میں 30  کے لگ بھگ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ 19 افراد کا ایک زائرین کا گروپ بھی تھا جن کے ساتھ  خواتین بھی تھیں۔ کچھ مقامی لوگ بھی سوار تھے۔‘

مقتول شاہ زیب کا بھائی فرہاد جس نے صحافیوں کو بتایا کہ شاہ زیب نے ایک ایجنٹ سے بات کی تھی جس نے اسے ایران کے راستے یورپ بھیجنا تھا۔ (فوٹو: بشکریہ محسن خالد)

زاہد کے مطابق ’دو مسلح افراد بس میں چڑھے۔ پہلے برا بھلا کہنا شروع ہوگئے اس کے بعد لوگوں سے  شناخت پوچھی۔ میں خاموش ہی رہا۔ ہمارے آگے پنجاب سے تعلق رکھنے والی فیملی بیٹھی ہوئی تھی جن کے ساتھ خواتین بھی تھیں ان کو مسلح افراد نے کچھ نہیں کہا اور آگے بڑھ گئے۔ میں خواتین کے ساتھ  والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا شاید وہ مجھے فیملی کا حصہ سمجھے اس لیے میری جان بھی بچ گئی۔‘

تحقیقات سی ٹی ڈی کے سپرد

ضلعی انتظامیہ کے مطابق واقعہ کی تحقیقات پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کردی گئی ہے جس نے ڈرائیور اور عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرکے اپنا کام شروع کردیا ہے۔
اس واقعے کی ذمہ داری  کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے جو اس سے قبل بھی اس طرز کے حملوں میں ملوث رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر واقعے سے قبل کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں نامعلوم نقاب پوش مسلح افراد جائے وقوعہ کے قریب اسلحہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان میں سے کچھ افراد این 40 شاہراہ پر گزرنے والوں کو روک کر اس سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
نوشکی کوئٹہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ہے۔ اس کی سرحدیں ضلع چاغی، خاران اور مستونگ کے علاوہ افغانستان سے بھی لگتی ہیں۔ فروری 2022 میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے یہاں ایف سی کے کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ یہاں اس سے قبل بھی مسلح تنظیموں کی سرگرمیاں رہی ہیں تاہم نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کے قتل کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور مسافروں کے قتل کے زیادہ تر واقعات اس سے پہلے بلوچستان کے جنوبی حصوں بالخصوص مکران  ڈویژن کے گوادر، پنجگور اور کیچ اضلاع میں پیش آتے رہے ہیں۔

کالعدم تنظیم کے کمانڈر کے بھتیجے کی ہلاکت

مسافر بس کے علاوہ فائرنگ کا نشانہ بننے والی گاڑی میں سوار دو افراد کی شناخت محمد داؤد مینگل اور صدام مینگل کے نام سے ہوگئی ہے۔

ایس پی نوشکی کے مطابق دو افراد کی موت اس وقت ہوئی جب نہ رکنے پر دہشت گردوں نے ان کی گاڑی کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ 

دونوں نوشکی کے رہائشی تھے۔ نوشکی پولیس کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقتول محمد داؤد مینگل کالعدم بلوچ مسلح تنظیم  کے  کمانڈر منیر مینگل کے بھتیجے تھے تاہم داؤد مینگل اور ان کے والد کا کالعدم تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔

انسانی سمگلنگ کے پہلو پر تحقیقات

حکام نے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ واقعے میں انسانی سمگلنگ کے پہلو پر بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ نوشکی پولیس کی رپورٹ  کے مطابق ’نشانہ بننے والے پنجاب کے رہائشی افراد انسانی سمگلرز کی مدد سے تفتان کے راستے ایران جارہے تھے تاہم ان کے پاس قانونی دستاویزات یعنی پاسپورٹ اور ایرانی ویزا موجود تھا۔‘
رپورٹ کے مطابق مقتولین میں منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھنے والے چھ افراد نے گوجرانوالہ کے ایجنٹ شاہد زیب کے ساتھ عراق تک پہنچنے کے  دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے  طے کیے تھے۔ شاہد زیب نے ان افراد کو دوسرے ایجنٹ رانا قاسم  کے حوالے کیا جو اس سے پہلے بھی کئی بار ایران جاچکا تھا۔ واقعے میں رانا قاسم بھی مارا گیا۔
عینی شاہد زاہد عمران نے بھی تصدیق کی کہ وہ ایجنٹ کے ہمراہ ایران جارہے تھے لیکن سب کے پاس پاسپورٹ، ویزا اور قانونی دستاویزات پورے تھے۔ ایجنٹ  کئی دفعہ پہلے بھی لوگوں کو ایران لے کر گیا تھا۔ ’اس نے ہم سے پیسے لے کر ویزے دیے تھے ہم نے ویزے بھی چیک کیے تھے اور وہ درست تھے۔‘
نوشکی کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ ایران اور عراق کے مذہبی مقامات کی زیارت اور زائرین کے نام پر لے کر نکلے تھے تاہم یہ  وہاں زیادہ عرصہ ٹھہر کر کام کرنا چاہتے تھے جب کہ ان میں سے کچھ لوگ ایران کے راستے یورپ بھی جانا چاہتے تھے۔ 
اس بات کی تصدیق گوجرانوالہ کے رہائشی  22 سالہ شاہ زیب  کے اہل خانہ نے کی ہے۔ گوجرانوالہ کے صحافی رانا محسن خالد کے مطابق شاہ زیب کا تعلق گوجرانوالہ کے پسماندہ علاقے نور پور سے تھا۔ چھوٹے سے کچے مکان میں رہنے والا یہ نوجوان پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔
محسن خالد  کے مطابق مقتول کے بھائی نے  مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ’شاہ زیب  اپنے خاندان کی قسمت بدلنے کے لیے یورپ جانا چاہتا تھا اس نے ایک ایجنٹ سے بات کی تھی جس نے اسے ایران کے راستے یورپ بھیجنا تھا۔ اس نے اپنی موٹر سائیکل، بھینس  کا کٹا اور چند بکریاں بیچ کر کچھ رقم جمع کی تھی لیکن نہ صرف اس کا خواب ادھورا رہ گیا بلکہ اپنے اہلخانہ کے لیے دکھوں کا پہاڑ چھوڑ گیا۔‘

ساجد کے والد جنہوں نے بتایا کہ ان کا آخری بار بیٹے سے کل تین بجے رابطہ ہوا تھا اور وہ تفتان کے لیے نکل رہے تھے۔ (فوٹو:  بشکریہ عادل دیوان)

پنجاب کے شہر منڈی بہاؤ الدین کے گاؤں چک فتح شاہ کے رہائشی محمد عارف کا 23 سالہ بیٹا ساجد عمران  بھی قتل ہونے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا بیٹا  27 رمضان کو گاؤں سے نکلا تھا۔ لاہور سے ویزا لے کر کوئٹہ روانہ ہوا۔
آخری بار بیٹے سے کل تین بجے رابطہ ہوا تھا اس نے بتایا کہ ہم کوئٹہ میں ہیں اور چار بجے تفتان کے لیے نکلیں گے اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا ہمیں پتہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے جوان بچے کو شہید کیا گیا ہمیں انصاف فراہم کیا جائے بس ہمارا یہی ایک ہی مطالبہ ہے۔‘
مقتولین میں منڈی بہاؤ الدین کے چک فتح شاہ کے رہائشی ماموں اور بھانجا بھی شامل ہیں۔ مقتول مزمل کے بھائی کا کہنا تھا کہ  ’ہم غریب لوگ ہیں بھائی محنت مزدوری کرنے ایران جارہا تھا۔ اس نے عید کی خوشیاں بھی گھر والوں کے ساتھ نہیں منائیں اور اپنے سفر پر نکلا لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ روزگار کی تلاش کی بجائے یہ ان کی موت کا سبب بن جائے گا۔‘

بے گنا ہ لوگوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا، سرفراز بگٹی

کوئٹہ میں مقتولین کی نماز جنازہ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ’بحیثیت بلوچ میں دہشت گردی کے اس واقعہ پر شرمند ہوں۔ لیکن دہشت گردوں کا کوئی قوم اور مذہب نہیں ہوتا۔ بلوچوں کی اکثریت بھی اس طرز کی دہشت گردی کو غلط سمجھتے ہیں۔‘

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بے گناہ لوگوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا جس نے بھی سہولت کاری کی اس کے پیچھے جائیں گے۔ (فوٹو: ڈی جی پی آر)

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اس حوالے سے جس کی بھی غفلت ہوئی اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بے گناہ لوگوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا جس نے بھی سہولت کاری کی اس کے پیچھے جائیں گے۔
’ہماری انٹیلی جنس اداروں کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ذمہ داروں کی نشاندہی کرسکیں۔ ریاست پوری طاقت کے ساتھ  دہشت گردوں پر حملہ آور ہوگی۔ کسی بھی صورت ریاست کی رٹ برقرار رکھی جائے گی۔ معصوم لوگوں کو قتل کیا جارہا ہو تو مذاکرات نہیں ہوسکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ امن وامان کے حوالے سے حکمت عملی پر نظر ثانی کی جائے گی۔ قومی شاہراہوں اور  مسافروں کی حفاظت کریں گے۔ ایف سی اور پولیس کی چیک پوسٹیں بنائیں گے۔

شیئر: