Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماسی’’گرہستی سے محروم گرہستن‘‘ خصوصی التفات کی مستحق

نگر نگر،گلی گلی بے سہارا، طلاق یافتہ خواتین کی فوج ِظفر موج دکھائی دیتی ہے
* * * دردانہ پرویز۔الخبر* * *
کیا ہی اچھے زمانے تھے جب عوام الناس تفریح طبع کیلئے گھروں سے نکلتے تھے۔ شہر اور دیہات کے حساب سے میلے ٹھیلے لگتے تھے اور یہ تہوار، یہ میلے سال میں 2 تین مرتبہ ہی لگتے تھے جن کا تذکرہ اگلے آنے والے تہواروں تک چلتا تھا اور ان تہواروں میں تہذیب و ثقافت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ آہ!پھر یوں ہوا کہ وقت نے کروٹ لی اور اب یہ تمام تہذیب و ثقافت قصہ پارینہ ہوگئی ۔وقت کے جبر نے کا یہ ہی پلٹ ڈالی اور اصلاح معاشرہ کے نام پر خواتین کو نام نہاد حقوق دلانے کے حوالے سے بے شمار تنظیمیں وجود میں آگئیں اور تو اور اب خواتین کا شعور اس حد تک بیدار کردیاگیا ہے کہ ان کے چہروں کو تروتازہ کرنے کے نام پر سیکڑوں ہربل ٹریٹمنٹس سامنے لائے جا چکے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وقت کے ایک اسلامی اسکالر جو میڈیا پر اپنی گفتار کے باعث لوگوں کے دلوں میں گھر کرچکے تھے ، اچانک مارننگ شوز میں نمودار ہوگئے کہ گویا دلوں کو بدلنے سے بہتر ہے کہ چہروں کو بدلا جائے اور مال و زر میں اضافہ مزید کیا جائے۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ہماری خواتین زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ہمارے گاؤں، دیہات میں تعلیمی حوالے سے گراف گر رہا ہے ۔ ہمارے صاحبانِ اختیار خواتین کو بنیادی حقوق دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ بالکل ہی ناکام ہیں۔ اسی طرح ان گنت خواتین ایسی ہیں جو طلاق کے بعد صرف معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھرجا بیٹھی ہیں۔
ان کا پرسان حال نہ تو معاشرہ ہے ،نہ عزیز و اقارب اور نہ ہی ریاست۔ میں اس سلسلے میں اپنی بہنوں سے صرف یہ کہنا چاہوں گی کہ خدارا مملکت میں رہتے ہوئے یہاں پر رائج طلاق کے قوانین کے بارے میں آگہی حاصل کریں۔ مملکت میں شرعی قوانین رائج ہیں۔ بہنوں کو چاہئے کہ وہ ان قوانین کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور انہیں نہ صرف اپنے لوگوں تک پہنچائیں بلکہ عوام الناس کو بھی ان قوانین سے آگاہ کریں۔ ایسا کرنے سے نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کے گھر دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں، وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ کر خوش و خرم زندگی کا پھر سے آغاز کرسکتی ہیں۔ بے سہارا، یتیم، بیوائیں، طلاق یافتہ خواتین ،جن کی اکثریت ناخواندہ ہے، وہ گھر گھر جا کر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔دنیا انہیں ’’ماسی‘‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں نگر نگر،گلی گلی ماسیوں کی فوج ِظفر موج دکھائی دیتی ہے ۔
ان کی اکثریت ایسی گرہستنوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں گرہستی سے محروم کر دیاجاتاہے۔یہ خصو صی التفات کی مستحق ہوتی ہیں۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ آج کے پرآشوب دور میں 2 فیصد مراعات یافتہ اشرافیہ کو سہولتوں کی فراہمی کے لئے تمام ادارے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا رطب اللسان ہے۔دوسری جانب روٹی کے حصول سے نبرد آزما یہ محروم طبقات جن کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں۔ ایک جانب ہمارے نجی چینلز پر پیش کئے جانیو الے مارننگ شوز کہ جہاں ہربل ٹریٹمنٹ کے نام پر مہنگے ترین علاج اور پارلرزکے بارے میں ’’بیگمات ‘‘ کو بھرپورآگہی فراہم کی جاتی ہے اور دوسری جانب وہ ’’اہلیہ‘‘کہ جسے طلاق کا کلنک لگاکر ’’نااہل‘‘ قرار دے دیاجاتا ہے ، اس کا درد بانٹنے اور اسے اسکا حق دلانے کے کسی چینل پر کوئی ’’مارننگ، آفٹرنون یا ایوننگ ‘‘ شو پیش نہیں کیاجاتا۔ یہ دہرا معیارصنفِ نازک کے ساتھ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے ۔ یہ تفاوت ہمارے مردانہ تسلط والے معاشرے کے منہ پرطمانچہ ہے۔ بہنوں سے گزارش ہے کہ رمضان کریم میں آپ جہاں دیگر ضروریات اور اپنے شوق پورے کرنے میں مصروف ہیں وہیں معاشرے کے اس مظلوم طبقے کے ہر لحاظ سے مدد کرنے کے لئے آگے ضروربڑھیں ۔ہمیں جاننا چاہئے کہ ٹوٹے دلوں کا خیال رکھنے کا بے حد اجر ہے ۔

شیئر: