Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید دیس میں کی یا پردیس کی، ریاض میں پاکبانوں کے تاثرات

 عید اپنوں کی دید کا نام ہے، اگر سب لوگ پردیس میں بھی ایک دوسرے کو اپنائیت دیں تو پردیس میں بھی دیس جیسا رنگ جمایا جا سکتا ہے

 
ریاض (ذکاء اللہ محسن )عید ایک ایسا تہوار ہے جس کے آنے سے پردیس میں بسنے والوں کو دیس کی یاد بہت تڑپاتی ہے اور وہ کئی بار اس خوشی کے موقعہ پر غمگین ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عید سعید کی خوشیاں منانے کے لئے پاکستان جا کر اپنوں کے سنگ عید کے مزے کو دوبالا کرتے ہیں۔اردو نیوز نے ریاض میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے سوال کیا کہ " عید دیس کی یا پردیس کی "جس کے مختلف جوابات سامنے آئے۔گزشتہ 15 سال سے سعودی عرب میں مقیم صداقت علی نے کہا کہ یوں تو عید یہاں بھی منا لیتا ہوں مگر اصل مزہ اپنے بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے درمیان ہی منانے میں آتا ہے۔بجلی کے شعبے سے منسلک محمد احمد نے کہا کہ عید تو اپنے دیس کی ہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں سبھی اپنے ہوتے ہیں خصوصاً ماں کی محبت اور اس کی چاہت ملتی ہے اور رشتے داروں سے میل ملاپ ہوتا ہے۔ محمد ابوبکر نے کہا کہ اوائل جوانی میں ہی سعودی عرب آ گیا تھا ۔اس کے بعد اس نے اب تک بہت کم عیدیں پاکستان میں دیکھی ہیں مگر پاکستان کی پرانی یادیںتازہ کرکے یہاں بھی اچھی عید گزر جاتی ہے۔ یہاں عید مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گزارنے کا موقعہ میسر آ جائے تو نہ صرف عید اچھی گزرتی ہے بلکہ دلی سکون بھی ملتا ہے۔چند ماہ قبل شادی کے بندھن میں بندھنے والے سلمان احمد کے تاثرات سب سے الگ تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک سال یہاں گزارنے کے بعد وہ 4 ماہ قبل پاکستان گئے اور شادی کروا کر واپس آگئے۔ اب عید کے اس پرمسرت موقعہ پر افسردہ ضرور ہوں مگر ٹیکنالوجی کے اس دور میں عید کے روز اس دوری کو کسی حد تک کم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ شعیب احمد کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پردیس کی عید کیسی ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ جوں جوں عید قریب آ رہی ہے، اس کے اندر اپنوں سے دوری کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ چوہدری نصیر احمد نے کہا کہ عید اللہ کا بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے ہر حال میں خوشی کے ساتھ گزارنا چاہئے کیونکہ جگہ اور مقام عید کی خوشی کو کم نہیں کرسکتے ۔خاور حیات کا کہنا تھا کہ اس نے عید کے روز پاکستان میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کوپر مبارکباد دینے کے بعد اپنی نیند پوری کرتا ہوںاور پھر شام کو دوستوں کے ساتھ لمبی ڈرائیو پر جا کر اور کسی تفریحی مقام پر ہلاگلا کرکے عید کو مناتا ہوں۔ اختر علی نے کہا کہ وہ جہاز کی مہنگی ٹکٹ کروا چکا ہے اور وہ چاند رات کو پاکستان پہنچ کر اپنے اہل خانہ کو سرپرائز دے گا۔اسامہ راشد نے کہا کہ سعودی عرب میں بھی عید مناتے کافی عرصہ ہونے کو ہے۔ یہاں پر بھی عید کی شاپنگ کرنے اور عید منانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بہادر علی خان نے کہا کہ عید تو بچپن کی ہوا کرتی تھی کیونکہ عید کے روز نئے کپڑے پہننااور پھر سب سے عیدی وصول کرنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا مگر اب تو عید دیس میں ہو یا پردیس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ڈاکٹر سعید وینس، راشد محمود بٹ، چوہدری سجاد، مبین چوہدری اور شیخ سعید نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن افراد کی فیملیز ان کے ساتھ ہیں، ان کی عید یہاں پر بھی نہایت اچھے طریقے سے گزرے گی مگر جن افراد کی پوری فیملی پاکستان میں ہے ان کی خوشی ادھوری رہتی ہے۔ تصدق گیلانی اوروقار نسیم وامق نے کہا کہ عید اپنوں کی دید کا نام ہے۔ اگر سبھی لوگ پردیس میں بھی ایک دوسرے کو اپنائیت دیں تو پردیس میں بھی دیس جیسا رنگ جمایا جا سکتا ہے۔ محمد خالد رانا، حنیف بابر، بابا ریاض اسحاق میمن، خالد اکرم رانا اور ملک محمود نے کہا کہ عید کے موقعہ پر اپنوں کی یاد آنا فطری عمل ہے کیونکہ انسان اپنوں کے ساتھ عید کے لمحات کو کبھی نہیں بھلا پاتا۔ فیصل علوی اور مولانا عبدالمالک مجاہد نے کہا کہ رمضان المبارک کے بعد عید ایک ایسی خوشی ہے جو اللہ نے مسلمانوں کو عطا کی ہے اس کو ہر حال میں اچھے طریقے سے گزارنا چاہئے۔
 
 

شیئر: