Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’اشتقاقیات‘‘

ہر اہل اپنی بیوی کو ’’اہلیہ‘‘ نہیں کہتا تاہم ہر نااہل اپنی بیوی کو ’’اہلیہ ‘‘ضرور کہتا ہے
* * * *شہزاد اعظم* * * *
ہمارے ایک دوست ہیں، نام ان اشفاق ہے ، مشغلہ انکا اشتقاق ہے،جس کا انہیں بے حد اشتیاق ہے۔یوں سمجھیں کہ ہماری شامت آئی تھی۔ ایک مرتبہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کے سامنے ہم نے کہہ دیا کہ ’’ ہم بچپن میں اسکول میں تھے‘‘۔بس یہ جملہ سنتے ہی اشفاق نے تنقید کرنا شروع کر دی کہ برادرم! اسکول میں انسان بچپن میں ہی ہوتا ہے، یہاں یہ باور کرانا حماقت ہے کہ ہم بچپن میں اسکول میں پڑھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بچپن میں اسکول ، الہڑپن میں کالج اور پکپن میں جامعہ میں ہوتاہے۔ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ آدمی پکپن میں اسکول میں ہو۔ فرض کریں اگر ایسا ’’سانحہ‘‘ وقوع پذیر ہو بھی جائے تو کم از کم ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان بچپن میں جامعہ کا طالبعلم بن جائے۔بہر حال آپ چونکہ ’’صحافتی شعبے‘‘سے منسلک ہیں اس ناتے سے آپ کو لا یعنی اور بے معنی الفاظ سے گریز کا پابند ہونا چاہئے چنانچہ ’’ہم بچپن میں اسکول میں تھے‘‘ کی بجائے آپ کو محض یہ کہنا چاہئے کہ ’’ہم اسکول میں تھے۔‘‘ویسے اگر آپ عمر اور مادر علمی کی نسبت و تناسب سے باہر نکلنا چاہیں تو اس کیلئے بہتر ہے کہ آپ صرف اتنا کہیں کہ یہ دورِ طالبعلمی کا واقعہ ہے ۔
اس میں اسکول، کالج یا جامعہ کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہم نے دل ہی دل میں سوچا کہ ہمارے وطنِ عزیز میں شہر شہر قائم نجی چینلزپر بولی ، پڑھی، لکھی اور سنائی جانے والی اردونے تو ہمیں بھی بال کی کھال نکالنے والا ’’ماہرِ اشتقاقیات‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔وہاں خبریں پڑھنے والا بار بار کہتا سنائی دیتا ہے کہ’’ 5سالہ کمسن بچے پر تشدد کرنے والا استاد اسکول سے فرار ہو گیا‘‘۔ اب اسے کون سمجھائے کہ 5سالہ سے مراد ہے کہ اس وجود کو دنیا میں آئے صرف5سال گزرے ہیں۔ یہ سب معانی اس ’’5سالہ‘‘ میں پوشیدہ ہیں پھر یہ وضاحت کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ گئی ہے کہ وہ ’’5سالہ‘‘ہونے کے باعث ’’کم سن‘‘ تھایعنی اس کو دنیا میں آنکھ کھولے زیادہ عرصہ نہیں ہواتھا۔ اس کے بعد تیسری سمع خراشی یہ بیان کر کے کی جاتی ہے کہ وہ 5سالہ کمسن ابھی ’’بچہ‘‘ ہی تھا۔ گویا ان کی نظر میں اس امر کا احتمال تھا کہ کوئی سامع یا قاری اس 5سالہ کمسن کو ’’عمر رسیدہ یا بڈھا ‘‘ نہ سمجھ بیٹھے۔ یہ سب باتیں سوچتے ہوئے ہمیں ایک ایسا خیال آیا جس نے ہمیں نیند کی وادی سے بیدخل کر دیا۔ ہمارے ذہن نے ہم سے سوال کیا کہ اگر اشفاق میاں ہمارے ہاں کسی نجی ٹی وی چینل کا رخ کر لیں توکیا ہوگا؟ہماری ذہانت و فطانت نے فوری جواب دیا کہ یا تو وہ چینل بند ہوگا اور یا پھر اشفاق صاحب کا اس چینل کی عمارت میں داخلہ بند ہو جائے گا۔
اشفاق صاحب کم از کم اُردو کی حد تک چونکہ ماہر اشتقاقیات ہیں اس لئے ان سے کوئی بھی لفظ پوچھ لیں، وہ اس کی تکوین، تدوین، تضمین ، حتیٰ کہ تدفین کے بارے میں بھی ناقابلِ دید ، ناقابلِ شنید اور ناقابلِ تردیدقسم کی وضاحتیں پیش کر کے آپ کی سوچوں میں بھونچال بپا کردیں گے۔کل’’ہوا کے دوش پر‘‘ اُن سے ہماری ملاقات ہوئی تو انہوں نے تو ہمارے بارے میں ہی ایسے انکشافات کر ڈالے جن کے بارے میں ہمارے اچھوں کو بھی علم نہیں تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ : ’’آج سے 389برس پہلے کا ذکر ہے ، ’’اعظم اعظم‘‘ نامی ایک لڑکا ہندوستان میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے اُس وقت کے ماحول کے مطابق بچپن میں ٹاٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی، الہڑپن میں کالج کی شکل دیکھی اور پکپن میں جامعہ پہنچ گیا۔
وہاں زنانہ اور مردانہ شعبے جدا جدا نہیں تھے بلکہ مخلوط ماحول تھاچنانچہ انجام وہی ہوا جس کا پہلے روز سے ہی دھڑکا لگا ہوا تھاکہ نازک صنف سے تعلق رکھنے والی ایک ہستی نے اپنا گھربسانے کیلئے ’’اعظم اعظم‘‘سے مشورہ لیا۔ اس نے نہ صرف نازک صنف کو گھر بنانے کے گُر سکھائے بلکہ اسے بسانے اور ا س میں بسنے کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کر دیں۔ سننے والی نے ’’اعظم اعظم‘‘ کی پیشکش کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ جامعہ سے فارغ التحصیل ہوتے ہی ’’اعظم اعظم‘‘ نے کراچی کی گیدڑ کالونی میں چھپر قائم کیااور محلے کی مسجد کے ا مام صاحب کو لے کر اپنی اپنی سائیکلوں پر سوار ہو کرموصوفہ کے ہاں جا پہنچے۔ وہاں نکاح پڑھوایا اورواپسی پر دلہن کو سائیکل پر بٹھا کر گھر لے آیاجہاں دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ان کے ہاں 37بچے ہوئے جن میں17صاحبزادیاں اور 20صاحبزادے تھے۔ ان کے نام وزیر،ضمیر ، نصیر ،کبیر ، صغیر، امیر، نذیر، ظہیر، شبیر، توقیر، تاثیر، تعبیر، تحریر، تقریر، منیر، سفیر، بشیر، جبیر، خمیر اورسمیر تھے ۔
ان کے ابا کا نام چونکہ اعظم اعظم تھا اس لئے ہر کسی کے نام کے بعد ابا کانام ’’ردیف ‘‘ کی طرح آتا تھا۔ آپ بھی اسی لڑی کے ’’نگینے ‘‘ ہیں۔ ان کاسب سے بڑا صاحبزادہ سب سے امیر تھا ۔ اس کانام ’’وزیر تھا‘‘چنانچہ ابا کے نام کا ردیف ساتھ لگانے سے اس کا نام ’’وزیراعظم‘‘بن جاتا تھا۔وزیر چونکہ پلوٹھا تھا ، اس لئے بہن بھائیوں میںسب سے بڑا تھا ۔ وہ بڑے ہونے کے ناتے سب پر اپنا حکم چلاتا تھا۔وہ سارے خاندان کورعایااور خود کو حاکم سمجھتا تھا۔اسی سوچ کے باعث اس کا لہجہ بھی تحکمانہ ہو گیا تھا۔ایک روز ایسا ہوا کہ سب سے چھوٹے بھائی سمیر ا عظم کا سب سے بڑابیٹا’’دلگیرسمیراعظم‘‘ہلاکو خان یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹا۔اس نے آتے ہی اپنے تایا ’’وزیر‘‘ کو گھر بلا کر ایسا رسوا کیا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
اس کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ آپ کو آخر کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے دودھ یاد آ رہا ہے چھٹی کا۔ یوں بہر حال دلگیر سمیر اعظم نے ’’وزیر اعظم‘‘ کو کھری کھری سنائیں اور اسکی ساری اکڑفوں نکال دی۔ ساتھ ہی اسے باور کرادیا کہ تم کسی اہل نہیں ہو۔اس نے دلگیر کے سامنے سرتسلیم خم کئے رکھا۔ اس کا حال ایسا ہو گیا کہ وہ د لگیر کا نام سن کر تھرتھرکانپنے لگتاتھا۔ دلگیر کئی برس کے بعد ایک روزیہ معلوم کرنے کے لئے’’وزیر‘‘کے گھر گیا کہ کہیں اس کی اکڑفوں واپس تو نہیں آگئی؟دلگیر نے وزیر اعظم کو بلایا ۔ وہ اپنی بیوی کو ساتھ لے آیا۔
دلگیر اعظم نے اپنے تایاوزیر اعظم سے سوال کیا کہ تم کس کے ’’اہل‘‘ ہو؟ اس نے جواب دیا میں تو کسی’’ اہل‘‘ نہیں۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیوی کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ ’’اہل یہ‘‘ ہے۔یہ سن کر دلگیر نے کہا کہ بس پھر کل سے یہی اس خاندان کی کرتا دھرتا ہوں گی۔ ‘‘ ماہر اشتقاقیات، اشفاق میاں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ’’اہل یہ‘‘ کے دونوںلفظ باہم مل گئے اور یہ ’’اہلیہ‘‘ لکھا، کہا، سنا اور پڑھاجانے لگا۔
آج حالت یہ ہے کہ ہر اہل اپنی بیوی کو ’’اہلیہ‘‘ نہیں کہتا تاہم ہر نااہل اپنی بیوی کو ’’اہلیہ ‘‘ضرور کہتا ہے۔ آج کے دورمیں دستوربن چکا ہے کہ اگر کوئی شوہر نامدار اپنے یا کسی کے کرتوتوں کی وجہ سے کسی اہل نہ رہے یعنی اسے ’’نااہل‘‘ کہا جانے لگے تو وہ زبانِ خلق کو دل سے تسلیم کر لیتا ہے اور بیوی کی آڑ میں خود کو چھپا کر کہتا ہے کہ میں ’’نااہل‘‘ ہوں اور ’’اہل یہ‘‘ ہے۔ اسی دوران صوتی لہروں نے ہمارے پردۂ سماعت سے متصادم ہو کر پیغام دیا کہ ’’نااہلی‘‘ کی صورت میں ’’اہلیہ‘‘منظر عام پر آسکتی ہیں۔ہم تو ہکا بکا رہ گئے ۔

شیئر: