Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر مرئی طا قت

امریکہ کو ہی دیکھ لیں جہا ں یہ رائے ہے کہ طا قت کا سرچشمہ مقننہ اور انتظامیہ نہیں بلکہ پینٹاگون ہے
* * * * سید شکیل احمد * * *
ہر آمر نے خاص طور پر فوجی آمر وں نے حقیقی عوامی قیا دت کی راہ پر روک لگا نے کیلئے ایسے ضابطے بنائے تاکہ ان کی آمرانہ حکمر انی کے مقابل کوئی سچی وکھر ی عوامی طا قت نہ آسکے ۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس ملک میں ہو ا ہے جہا ں آمر آئے۔ ان آمر وں کو جہا ں آمر انہ قوتو ں سے نبر د آزما ہو نا پڑ ا ہے اس کے ساتھ ہی عدالتو ں کے دکھ بھی اٹھا نا پڑ ے جس کی ایک مثال ترکی میں حالیہ فوجی انقلاب کی نا کامی ہے ، جہا ں عوام نے سڑکو ں پر نکل کر فوجی آمر یت کا راستہ کھو ٹا کر دیا ۔ترکی میں ایسی کشمکش کئی عشرو ں سے جا ری ہے ۔
اگر دنیا کے حالات وواقعات کا جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ محسو س ہو تا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اصل طا قت عوام نہیں بلکہ کوئی غیر مر ئی طاقت ہے۔ امریکہ کو ہی دیکھ لیں جہا ں کے بارے میں یہ رائے ہے کہ طا قت کا سرچشمہ مقننہ نہیں انتظامیہ نہیں پینٹاگون ہے ۔ اس کے ساتھ شریک سی آئی اے اور عدالتیں ہیں۔اگر ایسا نہ ہو تا تو اوبامہ جو منشور لے کر وائٹ ہا ؤس میں وارد ہوئے تھے تو اپنے اس منشور پر عمل کر نے میں کا میا ب ہو جا تے مگر ان کو وہ کچھ کر نا پڑ جو پینٹا گون نے چاہا۔ طیب اردوگان کو ترکی کی جمہو ریت کو بچانے کے بعد نہ صرف انقلا ب کی مساعی ناکا م کرنے والو ں کیخلا ف کار روائی کرنا پڑی بلکہ عدالتو ں میں بھی جھا ڑو پھیر نا پڑی ۔
نو ازشریفیف اب جبکہ نا اہلیت کے مر حلے سے گزر نے کے بعد از سر نو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو انھو ں نے اپنی تقریر میں چند سید ھے سید ھے الفا ظ میں کہہ دیا، براہ راست تنقید نہیں کی مگر انھو ں نے پہلی مرتبہ عدلیہ کی طر ف اشارہ کیاکہ پہلے توآمر و ں کو جو از دیا گیا ۔ آمر وں کی آئین شکنی کو جا ئز قر ار دیکر وفاداری کے حلف اٹھائے گئے ۔آئین کی خلاف ورزی کرنے والے صادق وامین ٹھہر ے ، گو یا سید ھے سے الفاظ ہیں مگر ما رشل لا کو قانو نی تحفظ دینے کے بارے میں اس سے زیا دہ کڑ وے الفاظ نہیں ہو سکتے ۔ ایک غلغلہ آفت خیز برپاہے کہ حکومت نے ایک شخص کیلئے آئین میں تبدیلی کی ہے ۔عجیب سا لگتا ہے۔ شور مچا نے والوں میں وہ سیا ست دان ہیں جن کو کل اس تبدیلی سے فائدہ پہنچنے والا ہے اور پہنچ سکتا ہے جیسا کہ محولہ بالا کہاگیا کہ سیا سی قیادت کو روکنے کیلئے ر اہیں کھوٹی کی جا تی رہی ہیں۔
پا کستان میں سب سے پہلے یہ قبیح حرکت فوجی آمر ایو ب خان نے ایبڈو کے نا م پر کی تھی۔ تحریک پا کستان کے کئی رہنما ؤ ں کو کر پشن کے نا م پر سیا ست کیلئے نا اہل کر دیا گیا تھا ،ان میں قیوم خان اورممتا ز دولتانہ ، ایو ب کھوڑو ، جن کو نااہل نہیں کیا ان کو کنونشن لیگ کیلئے خریدا گیا ۔ گویا سیاست کرنے کیلئے ایو ب خان سے پہلے کوئی قانو ن نہ تھا۔ بعدا زاں پر ویزمشرف نے اپنی راہ سے نواز شریف اور بے نظیر کو ہٹا نے کیلئے نا اہلی کا آرٹیکل نا فذ کیا ۔ آئین میں ترمیم کا اختیا ر سپر یم کو رٹ نے فوجی آمر کو بن مانگے عطاکیا تھا ۔یہ بھی دنیا کی تاریخ کا عجیب واقعہ ہے کہ عدالت جس کیلئے رجوع ہی نہیں کیا وہ خود ہی عدلیہ نے کر م فرمائی کر دی ، چنا نچہ یہ کہنا مناسب نہیں کہ ایک شخص کیلئے آئین میں ترمیم کی گئی ہے بلکہ یہ درست ہے کہ آمر کی تر میم عوام کے منتخب ادارے نے آمر کے منہ پر واپس ما ر دی ہے ۔ ہر ملک کے نظام میں طا قت کا منبع دیکھا جا تا ہے جیسا کہ ایر ان میں ہے۔ وہا ں صدر بھی ہے اور وزیر اعظم بھی ہے مگر طا قت کا منبع رہبر کو قرا ر دیا جا تا ہے۔ اگر اسی سوچ کے ساتھ دیکھا جا ئے تو پا کستان کے آئین کے مطا بق پا رلیمنٹ کو طا قت کا منبع ہو نا چاہیے کیو نکہ پا کستان ایک پارلیمانی جمہو ری ملک ہے اور اسکے ساتھ ہی اسلامی کا سابقہ بھی لگا ہو ا ہے مگر جب عمر ان خان نے دھرنا نمبر ایک دیا تھا تو اس وقت انھو ں نے بار بار امپا ئر کی انگلی کا ذکر کیا تھا۔
عوام ششد ر تھے کہ حکو مت سے ہٹ کر بھی کوئی طا قت ہے جس کو عمر ان خان امپا ئر کے نا م تشبیہ دے رہے ہیں مگر عوام نے سیا ست دانو ں کی ما ضی کی مو شگا فیوں کی بنا ء پر عمر ان خان کے اس جملے کو ایک تڑی سے زیادہ اہمیت نہ دی مگر گزشتہ روز احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پیشی کے وقت جو واقعہ ہو ا اس نے امپائر کی پول پٹی کھول دی ۔اب عوام کو ایقان ہو چلا ہے کہ مقننہ ،انتظامیہ اور عدلیہ کے علا وہ بھی کوئی غیر مرئی طا قت کا سر چشمہ ہے ۔ جب رینجر ز نے کار روائی کر تے ہو ئے کمر ۂ عدالت سے با اجازت صحافیوں سے عدالت کا کمرہ خالی کرالیا تو وہاں موجو د کئی صحافیوں کو گمان تھا کی جب عدالت لگے کی تو جج صاحب صحافیوں کی غیر حاضر ی کو محسو س کر یں گے اور حالات کا ادراک کر نے کے بعد صحا فیو ں کو عدالت میںداخلے کی اجازت از سر نو مل جا ئے گی ، مگر صحافی حضرات کمر ہ عدالت کے دروازے کا منہ تکتے رہے ۔
جب سماعت ہو گئی تو انھیں مد عو کیا گیا۔جج صاحب نے صحافیو ں سے اس واقعہ پر کہا کہ آئند ہ پیشی پر ان کو روکا گیا تو وہ خود دروازے پر لینے آئیںگے ۔ گما ن تو صحافیو ں کو یہ بھی تھا کہ جب وہ جج صاحب کو بتائیں گے کہ صحافیو ں کے ساتھ کیا ہا تھ کیا گیا ہے کہ کمر ہ عدالت میں گھس کو ان کو نکالا گیا تو وہ ضرور کوئی ایکشن لیں گے مگر جج صاحب نے جو فیصلہ لکھاہے اُس میں رینجر ز کی جانب سے کنڑول سنبھالنے کی تعریف کی ہے۔ حکومت کا شکر یہ ادا کیا گیا کہ اس نے رینجر ز کو حفاظتی اقدام کیلئے تعینا ت کیا ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جج صاحب کے علم میں ہی نہیں آیا کہ حکومت نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا بلکہ وہ خود رینجر ز کے اس اقدام سے متا ثر اور عجز انکسار کا نشانہ ہے ۔ اب توقع ہے کہ حالات سے جج صاحب باخبر ہو گئے اور وہ احاطہ عدالت میں بلا جو از اور بلا اجا زت داخل ہو نے کا نو ٹس لیںگے اسکے علا وہ عدالت کے کمر ے سے صحا فیو ں کو نکالنے کا بھی نو ٹس لیا جا ئے گا ۔

شیئر: