Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ کی 4نشستوں کےلئے ٹوٹ پھوٹ

***صلاح الدین حیدر***
آج میری نظروں میں 8 اگست 1986ء کا وہ منظر بڑی تیزی سے گھوم رہا ہے جسے دیکھ کر میرے صحافی دوست فیضان علی نے کہا تھا کہ  صلاح الدین !لگتا ہے کراچی کی قسمت بدل گئی۔ اس وقت تو میں نے ان کی بات کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی ، لیکن 34 سال بعدان  الفاظ نے میرے کانوں کو ہلا ہلا کر زخمی کر دیا ہے ۔ کیسا تابناک سماں تھا۔ نشتر پارک ، کراچی میں ایک لاکھ سے زیادہ کا مجمع، موسلا دھار بارش میں ساکت و جامد یونیورسٹی نے نکلے یا نکالے ہوئے چند نوجوانوں کی تقاریر سن رہے تھے ۔ ایسی بارش کہ بیان نہیں کر سکتا ، لیکن حیرت زدہ تھاکہ آخر لوگ ہٹنے کے لیے تیار کیوں نہیں ؟ بات ہی کچھ ایسی تھی  ، ان کے ساتھ سندھ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم  ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر عمران فاروق، جو شاید آخر سال میں تھے ، یاپھر ہاؤس جاب کر رہے تھے ، ساتھ میں زرین مجید بھی تھیں ۔ اک شعلہ بیان مقرر جو کہ بہت غریب گھرانے سے تشریف لائی تھیں ، ان کے والد پولیس میں سینیئر انسپکٹرتھے  لیکن اتنے ایماندار اور  نڈر کہ اعلیٰ عہدہ پر ہوتے ہوئے بھی کاٹھ کی چارپائی پر اپنے پرانے ، بوسیدہ پی آئی بی کالونی والے مکان میں رہائش پذیر تھے ۔ تقاریر جاری تھیں ، لوگ ہمہ تن گوش تھے ، بارش سے لا پروا ، اْوپر سے نیچے تک شرابور لیکن شاید یہ بچے بات ہی ایسی کر رہے تھے کہ انہیں سنے بغیر چارہ نہیں تھا۔  الطاف حسین کو جماعت اسلامی نے کراچی یونیورسٹی سے  مار پیٹ کر بھگادیا تھا لیکن یہ بھی کسی منچلے سے کم نہیں تھا ۔ اس نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن جو آج تک ( اے پی ایم ایس او ) کے  نام سے   توطلبائے کراچی کی خدمت میں پیش پیش ہے ۔ فیصل سبزواری ، مصطفی کمال اور نہ جانے کون کون ، کتنے ہی انمول ہیرے اِس تنظیم کی پیداوار تھے اور آج قوم کی خدمت میں پیش پیش  ہیں۔ ایم کیو ایم ویسے تو 1984 ء میں بنی تھی لیکن 1986ء میں بھرپور طریقے پر ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت  سے منظرعام پرآئی ۔ یہ بچے جو مشرقی پاکستان سے لٹ کر ، بے کسی کی زندگی اورنگی ٹاؤن میں گزار رہے تھے ، کوئی پرسان حال نہ تھا ۔ اُن کو الطاف اور ساتھی ایک ایک پیالا آٹا ، چاول ، گھر گھر،  بھیک مانگ کے پہنچاکر آتے تھے ، یہ جذبہ تھا ۔ مہاجر جو بانیانِ پاکستان ہونے کے باوجود  مہاجر ہی کہلائے ، ان کو  شناخت مل چکی تھی ۔ سارے کے سارے ایک جذبے سے سرشار تھے ، آگے بڑھنے اور قوم کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے بے قرار۔ ایم کیو ایم نے نام ہی اپنا مہاجر قومی موومنٹ رکھا ، وقت کی ضرورت بھی تھی اور پھردنیا نے دیکھا کہ یہی نوجوان ، سیاست سے نا بلد بچے صرف اپنی ذہانت اور ہمت و عزم کی بنیا دپرسیاسی اُفق پر آناً فاناً چھائے ۔
1987 ء کے میونسپل الیکشن میں ایم کیو ایم نے بڑے بڑے بت اْلٹا دیئے ۔کراچی ، حیدرآباد، میرپورخاص ، ٹنڈو آدم ، سکھر  اور کسی حدتک  نواب شاہ تک میں اپنے کونسلروں اور میئر کو  منتخب کروا ڈالا ۔ کوئی معمولی انقلاب نہیں تھا ۔ کراچی کی سیاست واقعی پلٹاکھا چکی تھی۔بڑی بڑی قد آور شخصیات پروفیسر غفور احمد ، محمود اعظم فاروقی ، شاہ احمد نورانی ، سب ہی  صفحہ ِ ہستی سے غائب  ہوچکے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔
جنرل ضیاالحق کی حادثاتی موت کے بعد جنرل اسلم بیگ کے زیر انتظام ہونیوالے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے صفایا کرڈالا لیکن الطاف  ضدی   اور تحکمانہ لہجے میں بات کرنے والا ۔ ان کے منصوبے اور ارادے تو بہت نیک تھے لیکن طور طریقے غلط ۔ سڑکیں بند کر دینا ۔ جنگ ، ڈان کا بائیکاٹ کر کے کہ ان کی خبر شہ سرخیوں میں کیوں نہیں لگائی … یہ سارے  اقدام غلط تھے ۔ صحافی برادری خوف میں مبتلا تھی۔  حمید ہارون جیسے  نڈر ڈان کے مالک تک الطاف سے بات چیت کرنے عزیزآباد میں ایم کیو ایم کے مرکز جو عام طور پر نائن زیرو کے نام سے پکارا جاتا تھا، پہنچے ، روداد بیان کی ، بات کچھ نہیں کچھ نہیں لیکن پھرحالت آہستہ آہستہ صحیح ہوتے چلے گئے ۔ میں خود  ایک منہ چلا جوانی کے عالم میں سرشار بھلا انکی بات کے کئی کئی نوٹس لیتا ۔ ایم کیو ایم کے ننھے منے لڑکوں نے اسٹرائیک کر کے تمام شاہراہیں بندکر دی تھیں ۔ سڑکیں  بند، بانس ڈال دیئے گئے ،آمدو رفت بند کر دی گئی تھی۔ میں نے جب اپنے گھرکے پیچھے سے گاڑی نکالی تو مجھے روکا گیا ۔ جنگ ہے آپ کے پاس ؟جی ہاں کیوں ، آپ کو مطلب ؟ نہیں لے جا سکتے۔ تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے ، رستہ صاف کرو ۔یہ تمہاری ذاتی جاگیر نہیں ، حکومت کی زمین ہے ، ہم روڈ ٹیکس دیتے ہیں۔میں سمجھا کہ  شاید ان بچوں نے مجھے  دیوانہ سمجھ کرچھوڑ دیا لیکن میں آج پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا آج اِس طمطراق سے خود ستائش کرنے والے ڈاکٹر فاروق ستار وہی شخص نہیں جو میئر ہونے کے باوجود الطاف حسین کے مکان کے آگے ہاتھ باندھے ہوئے الطاف حسین کے حکم کا انتظار کرتے ۔ اس وقت کہاںغائب ہوگئی تھی ان کی انا ؟ ان کی خود پرستی؟ جس کا ذکر آج وہ  زورو شور سے کرتے نظر آئے ہیں ۔ ایم کیو ایم بنی تھی مہاجروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ، نوکریوں میں ان کا آئینی طور پر مقرر 40 فیصد حصہ دلانے کیلئے ۔ میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجز میںاْردو اسپیکنگ لڑکوں اور لڑکیوں کو داخلے دلانے کیلئے۔ کیا آج سب یہ بھلا دیا گیا ؟ اور و ہ بھی صرف کسی فرد واحد کے واسطے۔ آخر یہ کامران تیسوری، کون ہے یہ شخص ؟ ان کے کارناموں کے بارے میں تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ صفحات کے صفحات کالے کئے جاسکتے ہیں ۔ ان کی حقیقت کیا ہے ۔دبئی میں جاکر پوچھئے کس کی دولت لے کروہاں سے رفو چکر ہوئے ۔ کراچی میں سونے کی ایک دکان کھولی جو کہ آج کل سیل ہے ۔ ایسے شخص نے فاروق ستار پر آخر ایسا کیا جادو کیا کہ  وہ بس انہی کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔خود ستائش اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا کہاں کا ظرف ہے ؟ انگریزی میں کہا جاتا ہے ( others are better judge )۔ دوسرے آپ کے بارے میں رائے دے سکتے ہیں لیکن3,3 گھنٹے کی پریس کانفرنس جو الصباح تک چلے  تو پھر آپ کے  دیرینہ ساتھی کہاں گئے؟ جو آپ پر جان نچھاور کرتے تھے اور آپ کو اپنا لیڈر مانتے تھے ۔ کیا سارے احسانات ایک فرد واحد کی خاطر قربان کر دیئے گئے؟ تو پِھر خود ہی بتا دیں فاروق ستار صاحب کہ رونا تو صرف اسی بات کا ہے ( ہمدریاں ، خلوص ، دلاسے ، تسلیاں ، دل ٹوٹنے کے بعد تماشے بہت ہوئے )۔ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔
باوجود تمام کوششوں کے میں اپنے آنسوروکنے میں ناکام رہا ۔3 دنوں تک سینیٹ کی 4 سیٹوں کے لیے ایک ایسی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی جو ایک زمانے میں جی بھائی جی بھائی کے علاوہ اور کچھ کہنا جانتی ہی نہیں تھی ۔ آپ اسے خوشاآمد کہہ سکتے ہیں ۔34 سال تک ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے کراچی حیدرآباد ، میرپورخاص میں حکومت کرتی رہی۔   اگر اپوزیشن میں رہی تو بھی اس کی دھاک انتظامیہ اور سیاسی حریفوں پر یکساں تھی۔  ایم کیو ایم کے اتحاد کی تو مثال دی جاتی تھی ۔رابطہ کمیٹی اور فاروق ستارنے اپنی علیحدہ علیحدہ دکانیں بناکر  اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ۔ ایم کیو ایم میرے مطابق توختم ہوگئی ،تو پِھر بے چارے مہاجروں نے ایسا کونسا قصور کیا تھا جس کی انہیں اتنی بڑی سزا دی گئی ۔بے سہارا ، بے بس۔ اللہ کرے ایسا نا ہو ، مالک پر پُر اعتماد ہے ۔وہ جب رسی کھینچتا ہے تو سارے منصوبے ، سارے پلان دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ قوی امید اب صرف اس  سے ہی ہے ۔ بس اتنا ہی کہہ دیتا ہوں……شالونا تیری عادت ہے تڑپنا ، کوئی مرگیا تو… دیکھیں اب ایم کیو ایم کس شکل میں باقی رہتی ہے ۔ 
 

شیئر: