Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ ہے ؟

کراچی (صلاح الدین حیدر) سوال ہی نہیں جواب بھی مشکل ہے۔ پاکستان نے اس مہینے کے شروع میں طالبان کے ایک کمانڈر کو رہا کردیا تھا۔ اب دوبارہ امریکہ کے کہنے پر 2 اور طالبان قائدین کو رہا کرنے کا اعلان ہوا لیکن امریکی حکومت کے افغان مندوب زلمی خلیل زادے نے اب دوبارہ پاکستان سے درخواست کی ہے کہ مزید طالبان لیڈر وںکو رہا کیا جائے تاکہ امریکہ طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے موثر فضا پیدا کی جاسکے عبدالصمد ثانی کو جو کہ امریکہ کی فہرست میں دہشتگرد قرار دیا گیا ہے اسے اور ایک نچلی سطح کے کمانڈر صالح الدین کی رہائی یا تو اب ہوگئی یا آئندہ 24 گھنٹوں میں رہائی عمل میں آجائے گی۔مگر سوال وہیں کا وہیں ہے کہ آخر امریکہ مذاکرات میں سنجیدہ ہے بھی یا نہیں۔ کئی مرتبہ واشنگٹن کی درخواست پر اسلام آباد نے طالبان کو اپنی قید سے آزاد کیا لیکن مذاکرات شروع ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تو پھر آخر زلمی خلیل زادے کا کردار کیا ہے۔ امریکی مقاصد کیا ہیں؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب ملتا ہی نہیں۔ پاکستانی حکومت سے اب تک کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔عبدالصمد خان 1990ءکی دہائی میں افغان سینٹرل بینک کے گورنر رہ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا طالبان تنظیم پر بہت گہرا اثر ہوگا اور ان کی رہائی کوئی معنی رکھتی ہے۔ شنید یہ ہے کہ زلمی خلیل زادے نے جو کہ پچھلے ہفتے سے افغانستان، قطر، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے دورے پر ہیں قطر میں طالبان نمائندوں سے ملاقات کی تھی جس کے نتیجے میں یہ رہائی عمل میں آئی ہے۔طالبان کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ مذاکرات سے پہلے امریکہ اپنی 14000 افواج کو افغانستان سے واپس بلائے اس لئے کہ وہ کسی دباﺅ کے تحت گفت و شنید کے لئے تیار نہیں۔ ویسے بھی افغان قوم ہمیشہ سے ہی بیرونی مداخلت کے خلاف رہی ہے۔ طالبان لیڈروں میں سب سے پہلے رہائی پانے والے عبدالغنی برادر جو کہ تنظیم کے بنیادی رکنیت رکھنے والوں میں سے تھے انہیں 2010ءمیں پاکستان اور امریکی آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ان کی آزادی پر امید پیدا ہوئی تھی کہ اب مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔ اب دیکھتے ہیں کہ دو اور لیڈروں کو رہائی دلوا کر امریکہ کتنا سنجیدہ ہے افغانستان میں امن کے لئے؟ اشرف غنی امریکہ کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن پھر پاکستان کو برا بھلا بھی کہتے ہیں تو سنجیدگی کہاں اور کب ہوگی؟ نتیجہ امن کی صورت میں پھر کیسے نکل سکتا ہے؟

شیئر: