Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راستہ

***محمد مبشر انوار***
عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔انسان کا عمل اس کی نیت کو ظاہر کرتا ہے مگر چونکہ حضرت انسان نہ صرف عقل سلیم سے سرفراز کیا گیا ۔ بلکہ اس کی سرشت میں مفاد پرستی کا عنصر بھی بدرجہ اتم موجود ہے اور اپنے تھوڑے سے فائدے کیلئے دوسروں کا بہت سا نقصان کرنا اس کیلئے انتہائی معمولی بات ہے۔ آج عام روزمرہ زندگی میں،تعلقات کی بنیادرکھی ہی مفاد پر جاتی ہے۔اگر مفاد ممکن نہیں تو تعلق رکھنا تو دور کی بات،الٹا کنی کترانا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی یہی اصول کارفرما ہے کہ ریاستیں ہمیشہ اپنے مفادات کے زیر اثر ہی وسعت و گہرائی و سرد تعلقات کو فروغ دیتی ہیں۔ جہاں ،جیسی ضرورت ہو ویسے ہی تعلقات نظر آتے ہیں۔ ریاستوں کے مابین تعلقات میں ،مفادات کے حصول کی خاطر راستے بنانا ہی مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے کہ کس طرح غیر محسوس انداز میں ،ایسی چال چلی جائے کہ بظاہردوسری ریاست کے اندرونی معاملات کو ٹھیس بھی نہ پہنچے اور اپنے مقاصد بھی حاصل کر لئے جائیں۔ تقسیم برصغیر کے وقت،بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان و ہندوستان کے درمیان ،امریکہ و کینیڈا جیسے تعلقات فروغ پائیں اور دونوں ممالک اپنے اپنے دائرہ کار میں ترقی کی منازل طے کریںمگر افسوس ہندوستان کے بغض و کینہ پرور روئیے کے باعث یہ ممکن نہ ہوسکا۔ گو کہ یہ بغض اور کینہ پروری تقسیم کے وقت ہی واضح ہو چکی تھی مگر ابتدائی کچھ سالوں تک یہ تعلقات اتنے غیر دوستانہ بھی نہ تھے اور پہلی کرکٹ سیریز میں جب ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تب پاکستانیوں نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے،ہندوستانی شائقین کرکٹ کیلئے اپنے گھروں کے دروازے ان پر کھول دئیے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پرانے دوستوں کو ہوٹلوں کی بجائے گھروںمیں رکھا گیا،ان کی خوب خوب آؤ بھگت کی گئی،باہمی مراسم کی قبل از تقسیم یاد تازہ کر دی گئی۔دکانداروں نے اپنی روایتی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستانی مہمانوں سے کسی بھی قسم کی خریداری کا معاوضہ لینے سے بھی اعراض برتااور اپنی بھرپور مہمان نوازی کا ثبوت دیا۔ ایسے مواقع پر انتہائی رقت آمیز مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے اور باہمی طور پر اس امرکا اظہار کیا گیا کہ تقسیم کی بجائے مل جل کر رہا جاتاتو زیادہ بہتر تھا تاہم بعد کے واقعات نے قائد اعظم کے فیصلے کو درست ثابت کیا۔ 
انتہائی افسوس کی بات یہ رہی کہ ہندو بنیا نہ صرف پاکستان کیخلاف مسلسل ریشہ دوانیوں میںمصروف رہا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں دیگر اقلیتوں ،بالخصوص سکھ اقلیت کو اس امر کا شدت سے احساس ہوا کہ تحریک آزادی میں ان کی قیادت،ان کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر گئی ہے۔ آج ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو کھلواڑ کھیلا جا رہا ہے وہ ساری دنیا کے علم میں ہے مگردنیا کی ایک چوتھائی معاشی مارکیٹ کے سامنے کسی کی مجال نہیں کہ ریاستی دہشتگردی کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے۔ دوسری طرف نیا ملک پاکستان تھا ،جس کی داخلی مضبوطی ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بالعموم اور مسلم اقلیت بالخصوص کے حقوق کی ضامن ہوتی مگر بدقسمتی کہ ابتدائی سالوں میں ہی پاکستان اپنے طے شدہ راستے سے ہٹنا شروع ہو گیا،جس نے ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں پر مظالم کے راستے بھی کھولناشروع کر دئیے۔ بعد ازاں ماسٹر تارا سنگھ کے غلط سیاسی فیصلوں کی سزا سکھ اقلیت نے اپنے خون سے ادا کی تو دوسری طرف پاکستان کی داخلی کمزوری نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کرنے کیلئے ہند توا،ہند وشوا پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کو ریاستی سر پرستی میں دہشتگردی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ماسٹر تارا سنگھ کی فاش غلطی کا احساس سکھ اقلیت کو اس وقت ہوا جب مشرقی پنجاب میں ہندوؤں کی آباد کاری کا عمل انتہائی غیر محسوس طریقے سے شروع ہوا ،تب سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے ساتھیوں نے اس سازش کا ڈٹ کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اس سازش کو ناکام کیا۔
آج ہندوستان میں کئی ایک علیحدگی کی تحریکیں زوروں پر ہیں اور ماؤ تحریک جو تقسیم کے وقت سے ہی ہندوستانی حکومت کیلئے د رد سر بنی ہوئی ہے،اپنے عروج پر ہے تو دوسری طرف سکھ اقلیت 2020میں خالصتان پر ہونے والے ریفرنڈم کیلئے اپنی تیاریوں میں مصرو ف ہے۔ ہندوستانی ریاستی دہشتگردی نے اقلیتوں کو کمزور کرنے کی بجائے،انہیں ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے اور آج اکثر ہندوستان کے اندر اور عالمی برادری میں ہونے والے کشمیریوں کے احتجاج میں سکھ بھی ان کے ہمراہ ہوتے ہیں،جو اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہندوستان کی تنگ نظر اور انتہا پسند حکومت کیلئے اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ایسے مرحلے پر پاکستان کی نئی حکومت نے سکھوں کے دیرینہ مطالبے کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتارپور راہداری کو کھولنے کا اعلان کیا،جس کا مقصددونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش ہے ۔ موجودہ صورتحال میں جب ہندوستان عالمی سطح پر پاکستان کو  انتہا پسند ریاست ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ۔پاکستان کی طرف سے یہ اقدام پاکستان کی امن پسندی کے طور پر لیا جائے گا ۔ ریاست پاکستان بہت سی غیر ضروری تنقید سے محفوظ ہو جائیگی لیکن اس اقدام کے بعد ریاست پاکستان کو ’’مشتری ہوشیارباش‘‘ کے عین مطابق اپنے اندرونی نظام کو بہت بہتر کرنا ہو گا کہ اس ایک آڑ میں پاکستان کا کندھا کہیں بھی استعمال نہ ہو اور سکھ یاتریوں کے بھیس میں ہند توا یا ویشوا پریشد کے انتہا پسند پاکستان کی سرزمین پر کوئی نیا گل نہ کھلائیں۔یہاں یہ امر انتہائی بر محل ہے کہ حزب اختلاف مسلسل دو باتوں کو ہوا دے رہی ہے کہ اگر یہی کام مسلم لیگ ن کی حکومت کرتی تو غدار کہلاتی اور دوسری یہ کہ کرتار پور راہداری کھولنے کا خفیہ مقصد یقینی طور پر قادیان تک سہولت فراہم کرنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے آخری 2ادوار میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کی ہیں مگر ان کوششوں کے متعلق جو حوالہ دیا جاتا ہے وہ اتنا ہے کہ ایک شخص مسجد کے باہر کھونٹا اس نیت سے گاڑتا ہے کہ مسافر اپنی سواری کو اس سے باندھ لیں اور دوسرا نمازیوں کو ٹھوکر لگانے کی نیت سے،مراد نیت سے ہے جبکہ دوسرا الزام اس تواتر کے ساتھ لگایا جا رہا ہے کہ حقیقت اس کے نیچے کہیں دب سی گئی ہے،قادیانی ،آج بھی بحیثیت ذمی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ آئین پاکستان انہیں بطور اقلیت تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر قادیانی بحیثیت اقلیت پاکستان میں رہ سکتے ہیں تو کرتارپور راہدرای کھلنے سے کیا قباحت ہو گی؟دوسرا تقسیم ہند کے اصل فارمولے پرنظر دورائیں تو کیا گورداسپوراور امرتسر مسلم اکثریت کے باعث پاکستان کا حصہ نہ ہوتے؟جالندھر،ہوشیار پوراور پٹھانکوٹ وغیرہ بھی پاکستان کا حصہ ہوتے،اس صورت میں ہندوستان میں موجودقادیان بھی پاکستان کا حصہ ہوتا ۔پاکستان اس وقت جن مسائل کا شکار ہے،ایسے میں کرتارپور راہداری کھولنا ،ایک طرف ہندوستان کا چہرہ بے نقاب کرنا ہے تو دوسری طرف درحقیت امن کا راستہ کھولنا ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں