Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یورپ میں گرمی کی لہر سے شہری پریشان

پاکستان میں ہر سال جھلسا دینے والی گرمی پڑتی ہے اور پاکستانی اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں، لیکن یورپ میں عام طور پرموسم گرما میں ٹھنڈ ہوتی ہے اور یورپی باشندے زیادہ گرمی سہنے کے عادی نہیں ہیں۔
پاکستان میں ہر سال جھلسا دینے والی گرمی پڑتی ہے اور پاکستانی اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں، لیکن یورپ میں عام طور پرموسم گرما میں ٹھنڈ ہوتی ہے اور یورپی باشندے زیادہ گرمی سہنے کے عادی نہیں ہیں۔
پاکستان میں ہر سال جھلسا دینے والی گرمی پڑتی ہے اور پاکستانی اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں،
پاکستان میں ہر سال جھلسا دینے والی گرمی پڑتی ہے اور پاکستانی اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں، لیکن یورپ میں عام طور پرموسم گرما میں ٹھنڈ ہوتی ہے اور یورپی باشندے زیادہ گرمی سہنے کے عادی نہیں ہیں۔
کافی برسوں کے بعد یورپ ایک مرتبہ پھر گرمی کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے جہاں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے فرانس میں سکول بند کر دیے گئے ہیں اور سپین کے جنگلوں میں لگنے والی آگ قابو سے باہر ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ 2003 میں یورپ میں درجہ حرارت 44.1 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تعداد بزرگ شہریوں کی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی درجہ حرارت 42 سے 44 سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
یورپی ممالک کی حکومتوں نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی ہیں اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
یورپ میں گرمی کی یہ لہر موسم گرما شروع ہوتے ہی غیر متوقع طور پر آئی ہے، جبکہ فرانس، یونان اور سپین میں جمعرات اور جمعے کو درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جانے کا امکان ہے۔
فرانس کے محکمہ موسمیات میٹیو فرانس کے مطابق فرانس میں جمعرات کو اوسط درجہ حرارت 34.9 سینٹی گریڈ تھا جو جون کے مہینے میں ریکارڈ کیا جانے والا بلند ترین درجہ حرارت ہے۔
میٹیو فرانس کا کہنا ہے کہ فرانس میں اس دفعہ 2003 کا ریکارڈ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گرمی کی لہر ہر سال آ سکتی ہے۔ یونیورسٹی آف ریڈنگ کے پروفیسر لین شیفرے کا کہنا ہے کہ ’عالمی سطح پر درجہ حرارت گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑھ رہا ہے اور اسی طرح غیرمعمولی گرمی پڑنے کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔‘

شیئر: