پاکستان میں سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر ایک ایسی خاتون کو سراہا جا رہا ہے جنہوں نے کم عمری میں بیماری سے ہونے والی معذوری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا بلکہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے جیسے دیگر معذوروں کی خدمت کی راہ اپنائی ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی شازیہ گلزار آٹھ برس کی عمر میں ٹائیفائیڈ کا شکار ہو کر قوت سماعت سے محروم ہو گئی تھیں۔ شازیہ نے مکمل سننے سے محرومی کو مجبوری بنانے کے بجائے مائیکرو بیالوجی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
وہ خواہش کے باوجود ایم فل نہیں کر سکیں تاہم اس مرحلے پر انہوں نے اپنے جیسی معذوری کا شکار دیگر افراد کے کام آنے کا فیصلہ کیا اور اس مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
گفتگو کے لیے شازیہ لفظوں کے علاوہ اشاروں کی زبان کا سہارا بھی لیتی ہیں۔ اپنے مخصوص انداز میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیچر بننے کی خواہش تھی لیکن معذوری کے سبب مشورہ دیا گیا کہ کچھ اور کروں۔ ’اگرچہ مجھے دکھ ہوا لیکن پھر میں نے بہرے یا کم قوت سماعت رکھنے والے بچوں پر توجہ دینا شروع کی۔‘
شازیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کم قوت سماعت رکھنے یا بہرے بچوں کے لیے ایک مینوئل بنایا تاکہ ایسے بچوں کی قدرتی ٹیلنٹ کے مطابق رہنمائی کر کے انہیں کامیابی کے راستے پر آگے بڑھایا جا سکے۔
ملئے کراچی کی شازیہ گلزار سے۔ 8 سال کی عمر میں ٹائیفائیڈ کی وجہ سے انکی قوت سماعت متاثر ہوئی ۔ پھر بھی تعلیم جاری رکھی مائکرو بایولوجی میں MSC کیl. ایم فل کرنا چاہتی تھیں مگر ملازمت میں معذوری آڑے آگئی۔تب انہوں نے قوت سماعت سے معذور افراد کے لئے کام کرنے کا فیصلہ کیا #courage pic.twitter.com/85bd0SCRQX
— Ammar Masood (@ammarmasood3) July 25, 2019