Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں صورت حال کی تصویری جھلکیاں

سری نگر کی مشہور ڈل جھیل ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہے۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ تین ہفتوں سے کرفیو نافذ ہے اور ٹیلیفون اور انٹرنیٹ پر بھی پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا کی جانب سے پانچ اگست کو اپنے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی گئی تھی اور وادی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
لوگوں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ احتجاج کے لئے باہر نکلتے ہیں اور ان کی انڈین سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوتی ہیں جس سے سینکڑوں گرفتاریوں بھی ہوئی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق انڈین انتظامیہ نے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا ہے، تاہم پابندیوں کے باوجود انڈین انتظامیہ مظاہروں کو نہیں روک سکی، ان مظاہروں میں مقامی افراد اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

مقامی افراد سری نگر میں جلتے ہوئے ٹائروں کے پاس سے گزر رہے ہیں جنہیں انڈین حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے دوران جلایا گیا تھا۔

مقامی خواتین سری نگر کے ایک محلے میں ان رکاوٹوں کے پاس کھڑی ہیں جنہیں علاقے کے لوگوں نے انڈین سکیورٹی فورسز کا داخلہ روکنے کے لیے کھڑا کیا ہے۔

تین ہفتوں بعد کشمیر کے کچھ حصوں میں زندگی معمول پر آئی ہے، لیکن مجموعی طور پر لوگوں کی نقل و حرکت، موبائل فون اور انٹرنیٹ پر پابندی ہے جس کی وجہ سے لوگ مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔

سری نگر میں انڈین سکیورٹی فورسز کا اہلکار ایک پہاڑی پر کھڑا علاقے میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے۔

سری نگر کی ڈل جھیل جہاں ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا تھا وہاں گذشتہ تین ہفتوں سے ایکا دکا افراد ہی نظر آتے ہیں۔
 

انڈین پیرا ملٹری فورسز کا اہکار سری نگر میں خاردار تاروں کے پیچھے کھڑا سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے۔ 
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کشمیر میں احتجاج کے پانچ سو سے زائد واقعات ہو چکے ہیں۔ انڈین فورسز مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور پیلٹ گنز کا استعمال کر رہی ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں میں 100 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں اور چار ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق کشمیر کی 70 لاکھ  آبادی شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔
تصاویر: اے ایف پی، روئٹرز۔

شیئر: