Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرملکی ’مردانہ وفود‘ طالبان سے ملاقاتوں کے بعد تنقید کی زد میں

فوزیہ کوفی نے کہا کہ ’عالمی لیڈرز خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن انہیں اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی طاقتیں اور امدادی گروپ جنہوں نے افغانستان میں شمولیتی حکومت بنانے پر زور دیا تھا اب اس بات پر تنقید کی زد میں ہیں کہ کابل میں طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں صرف مردوں پر مشتمل وفود کو کیوں بھیجا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے عبوری حکومت میں خواتین کو شامل نہیں کیا اور ان پر کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی پابندیاں بھی لگائیں جس کی دنیا نے مذمت کی۔
لیکن کابل میں طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں کچھ حکومتوں اور امدادی گروپوں کے وفود میں خواتین کی نمائندگی قدرے بہتر تھی۔
افغانستان میں انڈیپینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے جلا وطن سربراہ شہرزاد اکبر نے کہا کہ ’آپ کی ٹیم میں موجود سینیئر خواتین کو طالبان کے ساتھ ملاقاتوں کی سربراہی کرنی چاہیے۔ انہیں بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔‘
ہیومن رائٹس واچ کے ہیتھر بار نے کہا کہ ’کسی کو طالبان کے اندر یہ سوچ پیدا نہیں کرنی چاہیے کہ مردوں پر مشتمل جو دنیا وہ پیدا کر رہے ہیں وہ نارمل ہے۔‘
 طالبان نے حالیہ دنوں میں غیرملکی نمائندوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں ایک بھی خاتون نظر نہیں آتی۔
سابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے ناکام مذاکرات میں شریک ہونے والی فوزیہ کوفی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمی لیڈرز خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن انہیں اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ انہیں یہ ظاہر بھی کرنا چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں ہے۔‘
ہیتھر بار کا کہنا تھا کہ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ امدادی گروپوں اور طالبان کے درمیان ملاقاتوں میں بھی کوئی خاتون نہیں تھی۔
بہت سے امدادی گروپوں نے تسلیم کیا کہ ایک بھی ملاقات میں خاتون شامل نہیں تھی۔
ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی، یونیسیف اور ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے وضاحت کی کہ فوٹو سیشن کے لیے انہوں نے مردوں پر مشتمل ایک چھوٹا گروپ بھیجا تھا۔

شیئر: