Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف پروگرام کی تجدید، پیٹرول اور ڈیزل مزید مہنگے ہوں گے؟

معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر موجودہ سبسڈی جاری رکھنے کے لیے 96 ارب روپے درکار ہیں جو ایک سول حکومت چلانے کے اخراجات سے بھی دوگنا ہے۔ 
واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا ہے کہ ’اس وقت حکومت پٹرول کی مد میں 21 روپے جبکہ ڈیزل کی مد میں 51 روپے 52 پیسے سبسڈی دے رہی ہے۔‘
دوسری جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ’بغیر فنڈ کے سبسڈیز کو واپس کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے پروگرام کے ساتویں جائزے میں تاخیر ہوئی۔‘
اس صورت حال میں ایک عام آدمی اس وجہ سے پریشان ہے کہ اگر حکومت پیٹرول اور ڈیزل پر سابق حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی ختم کرتی ہے تو نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ مجموعی طور پر مہنگائی کا نیا طوفان آ سکتا ہے۔ 
اس تناظر میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کیا مہنگائی کے خلاف بیانیہ لے کر اقتدار میں آنے والی اتحادی حکومت مزید مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہے؟ 
اس حوالے سے وزارت خزانہ کا موقف ہے کہ ’پیٹرولیم مصنوعات پر جاری سبسڈی فوری طور پر ختم نہیں کی جا رہی۔ بالکل ایسا نہیں ہے کہ آج کل میں سبسڈی ختم کر دی جائے گی اور پیٹرول 21 روپے اور ڈیزل 52 روپے مہنگا کر دیا جائے گا۔‘

ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا لازمی تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’اس کے لیے آئی ایم ایف کا وفد مئی میں پاکستان آئے گا اور ان کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ اس کے بعد جب حتمی معاہدہ ہوگا تب اس حوالے سے فیصلہ ہوگا۔‘
وزارت خزانہ کا سبسڈی کے حوالے سے موقف واضح ہے کہ ’سبسڈی سے حکومت کو نقصان پہنچتا ہے لیکن مہنگائی کو کم کرنے کے لیے الگ سے اقدامات لینا پڑیں گے۔‘
معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ جب بھی کوئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے تو اس کے دو ہی مطلب ہوتے ہیں۔
پہلا یہ کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے اور دوسرا کہ عوام مزید مصیبت جھیلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
تاہم حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی فریز کرنے کے باوجود بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ٹارگٹڈ سبسڈی کے ذریعے مہنگائی کے اثرات کو کم کر سکتی ہے۔
معاشی ماہر ڈاکٹر ساجد امین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا لازمی تھا کیونکہ معاشی عدم استحکام اور سٹاک مارکیٹ اور روپے پر دباؤ اسی بے یقینی کی وجہ سے تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا کیا بنے گا؟‘
’آئی ایم ایف کا پروگرام صرف دو چار ارب ڈالر کا نہیں ہوتا وہ تو کہیں سے بھی لے سکتے ہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام ایک طرح سے کسی بھی معیشت کے لیے کریکٹر سرٹیفکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام غیر متوقع طور پر بند ہوتا ہے تو ہمیں اگلے چار پانچ مہینے میں 12 ارب ڈالر درکار ہیں جن کے ملنے کے امکانات کم ہوتے اور اگر مل جاتے تو ان پر سود بہت زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف جانا ضروری تھا۔‘

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کا وفد مئی میں پاکستان آئے گا اور ان کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ’اس کے اثرات مختلف طرح کے ہوں گے۔ ایک تو عالمی مارکیٹ میں ہماری رسائی مزید بہتر ہو جائے گی۔ کچھ اصلاحات بھی ریورس ہونے سے بچ جائیں گی۔ روپے پر دباؤ کم ہوگا اور روپے کی قدر کے ساتھ ساتھ سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری آئے گی۔‘
تاہم سابق سیکریٹری خزانہ اور ماہر معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن آئی ایم ایف کے پاس جانے کے مخالف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم 34 سال سے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہیں۔ اگر اس سے معاشی بہتر آتی تو اب تک پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہو چکا ہوتا۔ آئی ایم ایف پروگرام سے ملک میں مہنگائی بڑھے گی اور مہنگائی کے خلاف بیانیہ رکھنے والی جماعتیں جو اب حکومت میں ہیں وہ بھی اس کا حصہ بنیں گی اور کہیں گی یہ سب کچھ انھیں ورثے میں ملا۔ سیاست میں ہمیشہ سے یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ’سابق حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کو منجمند کر کے آنے والی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی تھیں، جو معاشی اعتبار سے غلط اور سیاسی فیصلہ تھا۔ ان قیمتوں میں رد وبدل سے یقیناً مہنگائی ہوگی۔ تاہم حکومت اس سے بچنے کے لیے ایک کام یہ کر سکتی ہے کہ اس کو مرحلہ وار بڑھایا جائے۔‘
’پہلے مرحلے میں صرف 10 روپے کا اضافہ کیا جائے جو سابق حکومت نے اصل قیمت میں سے کم کیے تھے اور اگلے دو مہینوں میں رفتہ رفتہ اصل قیمت بحال کی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات درست ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا فائدہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس دو سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں۔ جس کے پاس چھوٹی گاڑی یا موٹر سائیکل ہے اس کو فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کا متبادل طریقہ کار یہ ہے کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی ماہانہ 96 ارب روپے کی سبسڈی میں سے نصف بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کو دے دی جائے تو ان کی قوت خرید میں بہتری آ سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ ’سابق حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کو منجمند کر کے آنے والی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی تھیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’اس کے علاوہ یہ فوڈ سبسڈی کی شکل میں بھی دی جا سکتی ہے اور ٹارگٹڈ سبسڈی ہمیشہ سے عوام کو فائدہ پہنچاتی ہے۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ملکی معیشت کی بہتری اور مہنگائی پر قابو پانے کا واحد فارمولا ملک میں سیاسی استحکام کو قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی استحکام اور معاشی استحکام ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ موجودہ حکومت سابق حکومت کے خلاف منصوبہ بندی کر رہی ہے اور سابق حکمران انہیں گندا کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، ایسے میں معاشی پالیسیاں کون بنائے گا؟‘
’موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لائے اور جتنی جلدی ہو سکے سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر سیاسی استحکام لائے تب جا کر معاشی مسائل حل ہوں گے۔‘

شیئر: