Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمرات کی رمی، عداوتِ شیطانی کا رمز

 وہ در حقیقت اپنے نفس و شیطان کو کنکری مارتا ہے، زبانِ حال سے کہتا ہے کہ اے شیطان مردود ! تو مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا ، میں اب حرام کے قریب نہیں جاؤںگا
 
10 ذوالحجہ کو حاجی جمرۂ عقبیٰ کی رمی کرتا ہے جبکہ11، 12 ذوالحجہ کو جمرۂ صغریٰ ، جمرۂ وسطیٰ اور جمرۂ عقبیٰ تینوں جمرات کی رمی کی جاتی ہے۔ رمی کرتے ہوئے7،7 کنکریاں ہر جمرہ پر پھینکی جاتی ہیں۔ کنکری پھینکتے ہوئے ہر مرتبہ تکبیر یعنی ’’ اﷲ اکبر ‘‘ کہنا بھی مسنون ہے۔ عرف عام میں ان جمرات کو ’’ شیطان ‘‘ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ وہ جگہیں ہیں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے شیطان ظاہر ہوا تھا اور انہیں حکم الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے یکے بعد دیگرے 7 کنکریاں ماریں اور وہ زمین میں دھنس گیا تھا ۔ حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ مرفوعاً (رسول اﷲسے ) یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ:’’ابراہیم خلیل اﷲ ( علیہ السلام ) جب مناسک کی ادائیگی کے لئے آئے تو جمرۂ عقبیٰ کی جگہ شیطان ظاہر ہوا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے7 کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا ، پھر دوسرے جمرہ کے پاس ظاہر ہوا ، وہاں بھی آپ ؑنے اسے 7 کنکریاں ماریں اور وہ زمین میں دھنس گیا ، پھر تیسرے جمرہ کے پاس ظاہر ہوا ، وہاں بھی حضرت ابراہیم نے اسے7 کنکریاں ماریں ، یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا‘‘۔
 
یہ روایت نقل کرکے حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ  یوں کہتے ہیں:’’تم شیطان کو کنکری مارتے ہو اور اپنے والد (حضرت ابراہیم ؑ) کی ملت کی پیروی کرتے ہو ‘‘۔
 
بعض آثار میں یہ صراحت ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام مناسک حج کی تعلیم کے لئے اور ان مقدس جگہوں کو دکھانے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لے گئے تھے ، جہاں حج کے مناسک اور افعال ادا ہوں گے جبکہ بعض سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اﷲ کے حکم سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے منیٰ کی طرف جارہے تھے ، الغرض رمی کی ابتداء اور تاریخ یہی ہے کہ شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے اور انہیں حکمِ الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مقابلے میں شیطانِ مردود کو کنکریاں مارکر اس سے نفرت اوربغض و عداوت کا مظاہرہ کیا تھا ۔
 
حقیقت یہ ہے کہ شیطان ، انسان کا ازلی دشمن ہے۔ اس نے سب سے پہلے انسان اور بنی نوع انسان کے جد ِامجد حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حواء کو بھی بہکاکر اس درخت کاپھل انہیں کھلا دیا تھا ، جس کے قریب جانے سے بھی اﷲ تعالیٰ نے انہیں روکا تھا پھر اس کے سبب وہ جنت سے زمین پر اُتارے گئے۔ اسی وقت سے اولاد آدم اور شیطان کے درمیان معرکہ جاری ہے۔ وہ کبھی انسان کو خیر و بھلائی کا اور پروردگار کی طاعت و بندگی کا حکم نہیں کرسکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو شیطان کی عداوت اور دشمنی سے خوب آگاہ کردیا ، شیطان مردود کی پیروی کرنے اور اس کے نقش قدم پر چلنے سے خوب تاکید کے ساتھ روک دیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے لوگو ! بے شک اﷲ کا وعدہ سچاہے ، پس تمہیں دنیا کی زندگی دھو کہ میں نہ ڈالے اور دھوکہ باز ( شیطان ) تمہیں غفلت اوردھوکہ میں نہ ڈالے بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، تم بھی اسے دشمن جانو ، وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لئے بلاتا ہے کہ وہ سب کے سب جہنمی ہو جائیں‘‘۔ 
 
اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور شیطانی راہ پر نہ چلو ، بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے‘‘۔ 
 
شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور اولو العزم پیغمبر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بہکانے اور حق سے روکنے کی کوشش کی تو اولاد آدم اور عام انسان کیونکر اس کی عداوت اور دشمنی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس نے تو پروردگار سے یہ عہد کیا ہے کہ میں بنی آدم کے لئے سیدھے راستہ پر بیٹھ جاؤںگا اور دائیں ، بائیں اور آگے پیچھے سے انہیں بہکاتا رہوں گا۔ وہ کفار و مشر کین کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرکے اسلام میں داخل ہونے سے روکتا ہے ، ان کے کفر و شرک کو ان کے سامنے مزین کر کے دکھاتا ہے ، کمزور ایمان والوں کو طاعات سے بے رغبتی ، خواہش پرستی اور معصیت و نافرمانی میں مبتلا کر دیتا ہے جبکہ اہل طاعات اور مضبوط ایمان والوں پر فخرو غرور ، عُجب و خود پسندی اور ریاکاری وغیرہ کے راستوں سے حملہ آور ہوتا ہے ، انسان کی کامیابی اور فلاح اسی میں ہے کہ وہ شیطان سے معرکہ اور اس سے اپنی حفاظت کے لئے پوری طرح تیار رہے ، جن راستوں سے وہ حملہ آورہوتا ہے ان سے اچھی طرح واقف ہو اور ان پر نظر رکھے ۔
 
حج میں جمرات کی رمی ، نہ صرف ملت ابراہیمی کی پیروی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی یادگار کو باقی رکھنا ہے بلکہ اس حکمت اور حقیقت کو ذہن نشین کرنا ہے کہ شیطان میرا حقیقی دشمن ہے۔ حاجی رمی کے ذریعہ نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ کرتا ہے بلکہ وہ در حقیقت اپنے نفس و شیطان کو کنکری مارتا ہے اور زبانِ حال سے یوں کہتا ہے کہ اے شیطانِ مردود ! تو مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا ، میں اب حرام کے قریب نہیں جاؤںگا چاہے تو مجھے کتنا ہی ورغلائے اور برائی کو خوشنما بنا کر دکھائے ۔ الغرض جمرات کی رمی ، شیطان سے بغض و نفرت اور عداوت کی نشانی ہے۔حاجی کی طرف سے یہ اس بات کی علامت بلکہ پروردگار سے عہد کی طرح ہے کہ حج کے بعد مرتے دم تک باطل اورگمراہی چاہے جس شکل میں بھی اس کے سامنے آئے ، وہ اسے رد کردے گا ، مضبوط ہتھیار سے لیس ہوکر اور اﷲ تعالیٰ کی پناہ لیتے ہوئے سرکشی و طغیان کے مقابلے میں آہنی دیوار کی مانند رہے گا ۔ ساتھ ہی یہ اﷲ تعالیٰ کی یاد اور ذکر کو قائم رکھنا اور اس کی عظمت و کبریا ئی کو ذہن ودماغ میں راسنح کرنا بھی ہے چنانچہ جس طرح نماز میں اُٹھتے بیٹھتے اﷲ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا اور’’ اﷲ اکبر ‘‘ کہنا مشروع ہے اسی طرح جمرات کی رمی کرتے ہوئے بھی ہر کنکری ، اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہوئے یعنی تکبیر کہتے ہوئے پھینکنا مسنون ہے۔ روزمرہ زندگی میں جس قدر اﷲ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا استحضار ہوگا ، اُسی قدر نفس و شیطان کے وساوس اور مکر و فریب سے حفاظت رہے گی ۔ 
 

شیئر: