Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اشتہار..... ٹکے کی چیز کی ٹکا کر تعریف

 
شہزاد اعظم
 
کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا افراد کی ذہن سازی میں انتہائی اہم مقام رکھتا ہے ۔ اسی لئے ابلاغی ذرائع پر اشتہار دیئے جاتے ہیں۔ان اشتہارات میں ٹکے کی چیز کی ٹکا کر تعریف کی جاتی ہے اور انجام یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس شے کی خریداری کو اپنے لئے اعزار تصور کرنے لگتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ مٹی کو سونے کے بھاؤ فروخت کرنا چاہتے ہیں تومٹی کو خوبصورت ساشے میں پیک کیجئے، اشتہار ی انداز میں اس کی تعریف کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیجئے اور یہ اشتہار ذرائع ابلاغ کے حوالے کر دیجئے وہ ”چند کروڑ“کے عوض اسے بار بار ، بشکلِ تکرار یوں نشر کرےں گے کہ یہ اشتہار کی بجائے ”تو تکار“ محسوس ہونے لگے گا۔ ملک کے کسی بھی چپے میں مقیم پاکستانی جب بھی ٹی وی کھولے گا اور وہ کوئی خبر سننا چاہے گا تو ا سے ہر چینل پر اسی ”مٹی “کا اشتہار دیکھنے کو ملے گا۔آپ اگر خود کو جہاندیدہ،تجربہ کاراور عقلمند سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ مٹی کوخواہ کتنے ہی خوبصورت انداز میں پیک کیوں نہ کیا جائے ، یہ مٹی ہی رہتی ہے، سونا نہیں ہو سکتی تو یاد رکھئے کہ آپ کے گھر میں ایک ایسا نسوانی وجود بھی ہے جسے ”شریک حیات، شریک سفر، گھر گرہستن، وزیر داخلہ، چہار دیواری کی ملکہ ،جانِ من، صنف نازک، نصف بہتر ، اہلیہ، بیگم ، بیوی ،جورو، ایک یا متعددبچوں کی اماں کہا جاتا ہے، وہ سونے کے داموں یہ مٹی خریدنے کی ضد شروع کر دے گی اور آپ بیوقوفوں کی طرح مہنگے داموں مٹی خریدنے کے لئے لگائی جانے والی طویل قطار میںاپنی باری کے انتظار میں ایستادہ ہوں گے ۔
شہزاد اعظم کے دیگر مضامین پڑھیں
ہم بذاتِ خود ذرائع ابلاغ سے خوفناک حد تک متاثر ہیںکیونکہ ہم نے ذاتی زندگی میں مشاہدہ،تفکر و تجربہ کیا ہے کہ میڈیا ہماری سوچ کو ، بچار کو، دشمنی کو ، پیار کو، شک و شبے کو، اعتبار کو، چہرے پر برسنے والی پھٹکار کو، اس کے سنگھار کو، انسان کے قول کو، قرار کو، شیر کو اس کے شکار کو، لٹیرے کی گرفتاری کو اس کے فرار کو، افسرانِ سرکار کو، صاحبانِ اختیار کو انتہائی گمبھیراور شدیدانداز میں متاثر کرتا ہے۔ میڈیا اپنی کرنی پہ آجائے تو حاکم کو محکوم بنا دیتاہے، ظالم کو مظلوم بنا دیتا ہے، معلوم کو نامعلوم بنا دیتا ہے، کھوسٹ کو معصوم بنا دیتا ہے۔ اس لئے اس حوالے سے کوئی 6رائے نہیں ہو سکتیں کہ ذرائع ابلاغ معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں، معزز کو بے وقار کر سکتے ہیں، اسکوٹر کو کار کر سکتے ہیں، آنکھ والے کا اندھوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ میڈیا وہ وجود ہے جو چھوٹے کو بڑے کو، عوام کو خواص کو، قوم کو افراد کو، شاگرد کو اور استاد کونئی نئی راہیں دکھاتا ہے اور نئی نئی جہتوں سے آشنا کرتا ہے۔
مزید پڑھیں:وہ سوچ رہی تھی” ہماری خود غرضی کب ختم ہو گی
کہیں اور کے بارے میں ہم اتنے وثوق سے نہیں کہہ سکتے مگر اپنے وطن کے بارے میں تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ نے ہمارے ہاں کے بھکاریوں کو بھی شعور و آگہی کی اُن منازل پر متمکن کر دیا ہے جہاں وہ میڈیا کی عدم موجودگی میں 393برس تک نہیںپہنچ سکتے تھے۔ میڈیا نے بھکاریوں کو نہ صرف بھیک مانگنے کے جدید اطوار سے آشنا کر دیا ہے بلکہ ”فلسفہ بھیک“ کے حوالے سے بھی آگہی عطا کر دی ہے۔ہم یہ باتیں تیقُّن کی انتہائی منزل پر پہنچ کر کر رہے ہیں۔ 
 
ہوا یوں کہ ہم اپنے وطن کی اقتصادی شہ رگ ”کراچی“میں موجود تھے۔اپنے کرائے کے مکان میںموجود” قدرے ہال کمرے“ کے فرش پر پھسکڑا مار کر بیٹھے ذرائع ابلاغ اور اس پر نمودار ہونے والی شخصیات سے بے انتہاءمتاثر ہورہے تھے کہ اچانک بیگم نمودار ہوئیں اور انہوں نے غصے کے عالم میں بے نقط سناتے ہوئے ٹی وی کا مرکزی کنکشن ہی منقطع کر دیا اور بھِنّا کر بولیں کہ کتنی دیر سے آوازیں دے رہی ہوں، اجی سنئے سے لے کر بچوں کے ابا تک، ہرخطاب سے پکارا مگر آپ تمام تر سماعتوں کے ساتھ ”چینل بازی“میں مستغرق ہیں۔ کتنی دیر سے کہہ رہی ہوں کہ ”ننھے دی ہٹی“نامی بقالے سے ایک پاؤمسور کی دال اور 2کلو چاول لا دیں۔ ہم نیم شرمندہ ہوئے اور پیر پٹکتے ہوئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے کیونکہ بیگم کا حکم مانے بغیر چارہ ہی نہیں تھا۔” ننھے دی ہٹی“پر پہنچ کر ہم نے دال اور چاول طلب کئے، رش کافی تھا،کئی بیویوں کے شوہر اور کئی شوہروں کی بیویاں سودا لینے کے لئے موجود تھیں۔اسی اثنا ءمیں ہمارے ایک شانے پر کسی انسانی ہاتھ نے باقاعدہ دستک دی۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا توایک خاتون تھی جس کی عمر28سال 3ماہ اور21دن تھی۔ اس نے 302دن پرانے بچے کو گود میں لے رکھا تھا۔ہمارے متوجہ ہوتے ہی وہ گویا ہوئی کہ بڑے صاب! کوئی خیرات دے دو۔ ہم نے کہا ”معاف کرو۔“ اس نے ہم سے 19انچ دور کھڑی ایک خاتون سے کہا کہ ”بیگم صاحبہ ، صاحب تو نہیں سن رہے، آپ ہی دے دیجئے ، میری دعا ہے کہ جوڑی سلامت رہے۔“ یہ سن کر ہمیں تو کوئی غصہ نہیں آیا مگر وہ خاتون بھکارن پر برس پڑیں کہ” تمہیں تمیز ہونی چاہئے ، بکواس کرنے سے پہلے سوچ لیا کرو۔ جاؤ دفع ہو یہاں سے۔ “خاتون سے برا بھلا سن کر بھکارن کو بھی غصہ آگیا اور اس نے کہا کہ اگر اتنا ہی برا لگتا ہے تو اپنے ماتھے پر شوہر کے نام کا ٹیٹو بنوا لو، میں نے کوئی گالی تو نہیں دی۔ بندہ بشر ہے، غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ اس قدر غصے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ میںکوئی بھکارن نہیں،بخشش مانگ رہی ہوں، بھیک نہیں۔ پیسے نہیں دینے ، نہ دو مگر گالی تو نہ دو۔
مزید پڑھیں:ترقی کی راہ میں رکاوٹ ، کا لی بھیڑیں
اسی طرح ایک روز ہم دہی لینے کے لئے قطار میں کھڑے تھے۔وہاں ایک 7سالہ بچہ آ نکلا۔ اس نے پھٹے ہوئے کپڑے نہیں بلکہ پھاڑے ہوئے کپڑے پہن رکھے تھے کیونکہ اس کے پیشے کا تقاضا یہی تھا کہ وہ صحیح سالم یا ”بِن پھٹے“ کپڑے نہ پہنے۔ بہر حال، ہم سے آگے ایک شخص اپنے 9سالہ بچے کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ بھکاری بچہ آیا اور اس نے انتہائی مظلوم و معصوم شکل بنا کر اس شخص سے کہا کہ مجھے 50روپے دے دو۔ اس نے کہا کہ ”معاف کرو “مگر وہ بھکاری بچہ شاید اسے معاف نہ کرنے کی ٹھان کر آیا تھا۔ اس نے ”فلسفہ¿ بھیک“ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں شوقیہ نہیں، مجبوراً ہاتھ پھیلا رہا ہوں۔ میرا ابا ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگیا، آج میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا، مجھے دکان سے دہی لے کر دینے والا کوئی نہیں۔ تم تو اپنے بچے کو ساتھ لے کر دہی دلانے لائے ہو ، اگر آج تمہیں بھی کوئی ٹارگٹ کلنگ میں جان سے مار دے تو کل کو تمہارا بچہ کیا میری طرح ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہیں ہوگا؟جب اس نے دیکھا کہ باپ کا دل پسیجنے سے انکاری ہے تو اس نے بچے سے کہا کہ آپ ہی اپنے ابا کو سمجھاؤ کہ بچے سب برابر ہوتے ہیں، سب کے جذبات ایک جیسے ہوتے ہیں، آج میں ہاتھ پھیلا رہا ہوں، تم ہاتھ کھینچ رہے ہو۔ کل کو یہ ہاتھ بدل بھی سکتے ہیں۔یہ سن کر باپ نے 50کا نوٹ اسے تھمادیا مگر جاتے جاتے کروڑ روپے کی بات کہہ گیا ۔ اس نے بھکاری بچے سے کہا کہ کاش ایسی نصیحتیں کوئی ہمارے صاحبانِ اختیار کو بھی کرے تاکہ پھیلنے والے اور کھنچنے والے، لوٹنے والے اور لُٹنے والے ہاتھ بدل جائیں۔
مزید پڑھیں:استعارے کا حقیقت میں بدل جانا ہے یہ
 
 
 
 

شیئر: