Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضابطوں سے عاری اختلاف ، تلخیوں کا سبب

لوگ مکاتب فکر رکھنے کی وجہ سے تفرقے میں پڑگئے حالانکہ مکاتب فکرکاوجود معیوب نہیں بلکہ یہ تنوع ہے
عبد الستار خان
ہم میں سے بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے کہ امت میں اختلاف رائے صحت مندی اور تندرستی کی علامت ہے ۔ہر شخص کی اپنی رائے ہے جس کے اظہار کی اسے آزادی حاصل ہے مگر اختلاف رائے رکھنے والے اکثر لوگوں کو معلوم نہیںکہ اسلام نے اس کے لئے کچھ ضابطے مقرر کئے ہیں۔ان ضابطوں کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے بعض افراد تعصب اور منافرت میںمبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ دائرہ اس قدر پھیل گیا کہ امت کے افراد اور جماعتیں اختلاف رائے کی وجہ سے گروہوں میں بٹ گئیں۔اب یہ بیماری گھن کی طرح جسد ملی کو اندر سے کھوکھلا کرنے لگی ہے۔
آزادیٔ انتخاب اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور ہر آدمی کو مختلف رائے رکھنے کا حق ہے مگر یہ اختلاف اگر ضابطوں سے عاری ہوجائے تو اس سے تلخیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی مذمت بھی کی ہے۔ان آیات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اختلاف کی مذمت کی ہے جو حق کو باطل کا لبادہ پہنائے یا آدمی پر حق واضح ہوجائے پھر بھی وہ باطل پر ہی اڑا رہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں نہ پڑیں۔اختلاف رائے رکھنا فطری اور طبعی امر ہے مگر اختلاف رائے رکھنے کی وجہ سے تفرقے میں پڑنا مذموم قرار دیا گیا ہے۔ اختلاف رائے رکھنا اور تفرقے میں پڑجانا دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر ہم مسلم امت کا ماضی قریب اور حال دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امت کے افراد مختلف مکاتب فکر رکھنے کی وجہ سے تفرقے میں پڑگئے ہیں حالانکہ مختلف مکاتب فکرکاوجود فی نفسہ معیوب نہیں بلکہ یہ اسلام میں تنوع ہے۔اسلام قیامت تک کے لئے باقی رہنے والا دین ہے جس میں فروعی معاملات میں اختلاف رائے رکھنا معیوب نہیں بلکہ یہ  اسلام کا ہی خاصہ ہے کہ اس میں اتنی لچک ہے کہ یہ ہر زمانے اور ہر قسم کی سوچ وفکر رکھنے  والے لوگوں کے لئے یکساں طور پر قابل عمل ہے۔اسلام کے مختلف مکاتب فکر اس بات کی نشانی ہے کہ ہمارا دین لچکدار ہے کہ اس کے ماننے والے فروعی مسائل میں اختلاف رائے رکھ سکتے ہیں۔
اختلاف رائے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امت کے علماء اور صلحاء خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، وہ سنی ہوں یا شیعہ ان سب کادین کے بنیادی اور اساسی امور میں اتفاق ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اکرم کی رسالت پر اختلاف نہیں رکھتے۔ نماز ، روزہ، حج ، زکاۃ اور دیگر فرائض میں ان کا اختلاف نہیں۔جو چیزیں قرآن مجید اور سنت طیبہ میں حرام ہیں جیسے سور کا گوشت، شراب ، مردار کا کھانا ودیگر منہیات، ان سب پر علمائے امت کا اتفاق ہے خواہ وہ سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل تشیع ہوں البتہ سنی اور شیعہ نیز سنیوں کے مختلف مکاتب فکر کا اختلاف ان امور میں ہے جو دین کی اساسی بنیادیں نہیں بلکہ فروعی معاملات ہیں۔ان معاملات میں اختلاف کے اسباب پر آگے چل کر نشاندہی ہوگی مگر ان فروعی معاملات میں اختلاف کرنے کے باوجود علمائے امت کا کیا رویہ تھا۔کیا وہ اپنے موقف پر اس قدر اصرار کرتے تھے کہ امت میں پھوٹ پڑجائے اور لوگ فرقوں میں بٹ جائیں۔علمائے امت کی روشن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اصحابِ مکاتب ِفقہ کے علاوہ علمائے امت میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔
اختلافات کی وجہ سے تاریخ کے صفحات میں خون آلود کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔یہ تاریخ اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے ۔ ماضی میں جھانکنے کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا۔ہمارا حال اس قدر پریشان کن ہے کہ امت کو  مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز سے  اگر نمٹنا ہے تو ماضی کی خونیں تاریخ کو بھلاکر نیا آغاز کرنا ضروری ہے۔ماضی میں پیش آنے والے  واقعات اور اسباب اب ماضی کا حصہ ہیںجسے اب یاد کر نے اورہرانے کی ضرورت نہیں۔ان میں کون حق پر تھا، کون غلط  اس کا فیصلہ ہم نے اپنے سپرد کیوں کردیا ہے ۔ان کے حساب کتاب کے ذمہ دار ہم نہیں ۔اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ  پر چھوڑ دیں جو ہر صاحب حق کو  اس کا اجر دے گا ۔وہی نیتوں کے حال سے واقف ہے۔
ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مکتب فکر سے چاہے رجوع کرے۔جس کی چاہے تقلید کرے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہی حق پر ہو اور باقی سب کو گمراہ قرار دے۔خود کو برحق اور دوسرے کو گمراہ قرار دینے والا امت میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ تفرقہ بندی اور لسانی اور گروہی تعصب جاہلیت کے نعرے ہیں۔قرآن مجید میں اس کی صریح ممانعت ہے۔
غور کیا جائے تو شاس بن قیس کا کردار ادا کرنے والاکسی نہ کسی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جو امت کے افراد کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ امت تفرقہ میں پڑجائے تاکہ اندر سے کھوکھلی ہو اور اس پر حملہ کرنا آسان  ہو جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑونہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی۔ شاس بن قیس جیسے لوگ امت کو گروہوں میں بانٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔کبھی ان کا نعرہ سنی شیعہ کا ہوتا ہے تو کبھی حنفی، مالکی کہتے ہیں۔کبھی مقلد اور غیر مقلد کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی دیوبندی اور بریلوی کی صدا لگاتے ہیں۔امت کے تمام مکاتب فکر کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی گروہی عصبیتوں کو  فروغ دینے والوں سے ہوشیار رہیں۔خاص طور پر موجودہ دور میں جس میں امت کے خلاف تمام طاقتیں متحد اور یکجا نظر آتی ہیں۔یورپی ممالک ہمارے لئے مثال ہے۔
امت کے افراد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر جمع ہوں ۔آج امت میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی جو  روش چل پڑی ہے  وہ اتنہائی خطرناک ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ کا  ایک  زریں قول ملاحظہ کریں:مسلمانوں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھیں گے جس طرح صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے اور ان کے بعد ائمہ اربعہ کا بھی اسی پر اتفاق رہا۔جو شخص اس اجماع امت کا انکار کرے تو وہ مبتدع، گمراہ اور کتاب وسنت کے  علاوہ اجماع المسلمین کا مخالف ہے۔
اختلاف رائے کے اسباب میں ایک سبب عامۃ الناس میں پایا جاتا ہے جس سے علمائے حق مبرا ہیں اور  وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے امام کی رائے کو بالا اور دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جاتے ہیں۔اپنی رائے کو حق ماننے پر عناد اور اصرارکرنے لگ جاتے ہیں۔ان کا مقصد حق کو ظاہر کرنا اور اس کی اتباع کرنا نہیں بلکہ اپنی رائے کو دوسرے پر مسلط کرنا ہوتا ہے۔طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اختلافی مسائل کو علمائے حق کی کتابوں سے تلاش کرکے اس کے جواز اور عدم جواز پر فیصلہ کرے ۔ایسا نہ ہو کہ عوام الناس کی رائے سن کر وہ اپنافیصلہ قائم کرے۔
 
 

شیئر: